راہیں نکال دی ہیں۔ نبوت کے مدعی صادق ومدعی کاذب کے درمیان امتیاز معمولی عقل وفہم رکھنے والے کے لئے کس قدر مشکل ہوتا اور اشتباہ کا کس قدر شدید خطرہ لاحق ہوتا۔ سلسلۂ نبوت بند کر کے ارحم الرحمین نے اس امت کو اس عظیم خطرے سے بچا لیا اور انہیں ایک دائمی وابدی دین سے نواز کر سہولت کے ساتھ امم سابقہ پر انہیں فضیلت بھی عطاء فرمائی۔
اس کے علاوہ ضلال سادہ کا مقابلہ آسان ہے۔ اس کے لئے قوت فکریہ پر زیادہ بار ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن دجالی ضلالت سے نبرد آزمائی آسان نہیں یہ قوت فکریہ کی بڑی مقدار کی محتاج ہوتی ہے۔ جس کے لئے توجہ ویکسوئی لازم ہے۔ اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو امت کی قوت فکریہ منقسم ہو جاتی اور اس کے اوپر دہرا بار پڑتا۔ سچے نبی کو پہچاننا اور دجالیت کا مقابلہ کرنا دونوں کاموں میں فکر کی بڑی مقدار صرف کرنا پڑتی۔ یکسوئی مفقود اور فکر کمزور ہو جاتی۔ نتیجہ غلبہ کے بجائے مغلوبیت کی ہلاکت آفریں صورت میں نکلتا۔ نبی سے روگردانی عین ضلال ہے۔ جس کا مآل جہنم ہوتا۔ حکمت ورحمت کا تقاضا ہوا کہ اس امت کی قوت فکریہ تقسیم کر کے اسے اس خطرۂ عظیمہ میں نہ ڈالا جائے بلکہ اس میں یکسوئی باقی رکھ کر ہدایت وخبت کا راستہ آسان بنادیا جائے۔
اس دجالی دور یا دور جدید کی ایک اور خصوصیت ہے جو اسے دور قدیم سے ایک قسم کا امتیاز عطا کرتی ہے۔ اس دور میں باطل کی دعوتوں کی جتنی فراوانی ہے۔ اس کی نظیر دور قدیم میں نہ مل سکے گی۔ باطل نظریات اس زمانہ میں بھی موجود تھے۔ مگر ان کی کیفیت یہ تھی کہ ان کے حاملین اکثر وبیشتر داعی نہ تھے۔ دعوتی مزاج رکھتے تھے۔ خود ان باطل نظریات کے معتقد تھے اگر اقتدار حاصل ہو جاتا تھا تو دوسروں کو جبر وظلم سے انہیں عملاً تسلیم کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ لیکن ان کی طرف دعوت نہ دیتے تھے۔ قوت سے کسی شئے کو کسی پرمسلط کر دینا دوسری چیز ہے اور دلائل کی بنیاد پر کسی کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرنا جس کا نام دعوت ہے دوسری چیز ہے۔ قوم عاد وثمود وغیرہ کا تذکرہ آپ قرآن مجید میں پڑھتے ہیں۔ یہ مشرک اور بت پرست قومیں تھیں۔ لیکن ان کے اعمال سیئہ کی فہرست میں دوسری قوموں کو دعوت شرک دینے کا نام کہیں نہیں ملتا۔ قبطی باوجودیکہ بنو اسرائیل کو غلام بنائے ہوئے تھے۔ مگر آخر تک کہیں اس کا پتہ نہیں چلتا کہ انہوں نے اسرائیلیوں کو اپنے باطل مذہب کی دعوت دی ہو اور انہیں اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی ہو۔ آریوں نے ہندوستان کے اصل باشندوں، دراوڑوں وغیرہ کو غلام بنالیا اور اپنے بہت سے قوانین کا پابند بنایا۔