میں بھی ملتے ہیں اور احادیث نبویہ میں بھی۔ اجتہاد وتفکر کا طریقہ مزید تفصیلات وجزئیات تک پہنچا دیتا ہے۔ اس کے بعد اس دجالی فتنہ کے ایک ایک جزئی کے متعلق احکام وتدابیر بیان کرنے کے لئے کسی نئے دین وآئین کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے؟ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد اگر کوئی شخص جزئی انقلاب کے لئے کسی نئی کتاب یا کسی نئے دین یا کسی نئے نبی کا منتظر رہے تو یہ اس کی انتہائی سفاہت وحماقت کی دلیل ہوگی۔ فتنۂ دجال یا دجالی دور آنحضورﷺ کی حیات طیبہ ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ آنحضورﷺ نے خبر دی تھی کہ اس امت میں دجل فی النبوت کرنے والے تیس پیدا ہوںگے۔ یعنی یہ سب کے سب نبوت کا جھوٹا دعویٰ کریں گے۔ ان کذابوں اور دجالوں سے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے تو آنحضورﷺ کے زمانہ ہی میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ فتنہ ابن سباء نے حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں سر اٹھایا۔ اس کے بعد دینی فتنوں کا تانتا بندھ گیا۔ ان سب میں قدر مشترک وہی دجالیت ہے جس سے پوری پوری آگاہی آنحضورﷺ نے بخشی ہے اور جس کی انتہاء دجال اکبر کے فتنہ عظیمہ پر ہوگی۔ آج کی باطل دعوتوں اور مختلف الالوان ضلالتوں اور اس زمانہ کی دعوتوں اور ضلالتوں میں صرف قالب کا فرق ہے۔ ورنہ روح اور نوعیت سب کی ایک ہے۔ یعنی دجل اس لئے سب کو دجالی فتنہ کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں اور سب کے لئے علاج کلی ایک ہی ہوگا۔ جس کی تطبیق متفرق جزئیات پر صرف معمولی غوروفکر کی محتاج ہے۔
فتنہ دجال سرمایہ داری کی صورت میں آئے یا اشتراکیت کی شکل میں۔ شخصیت کا لباس پہنے یا جمہوریت کا۔ تشدد کی تلوار لے کر آئے یا عدم تشدد کا جال۔ مختصر یہ کہ وہ قیامت تک جس شکل ولباس میں آئے اسلام اس سے بزبان حال یہی کہتا ہے اور کہتا رہے گا کہ ؎
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدت رامی شناسم
دین محمدیؐ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت اور ہمہ آن تیار ہے اور قیامت تک تازہ دم اور مستعد رہے گا۔ اس کے ہوتے ہوئے انسانیت وروحانیت کو کسی دین اور کسی دوسرے نبی کی بعثت کی کوئی حاجت نہیں۔
یہاں پہنچ کر ختم نبوت کی اس حکمت کا تذکرہ بھی نافع ہوگا کہ اس دجالی دور میں سلسلۂ نبوت کا جاری رہنا اور مختلف انبیاء کا مبعوث ہونا یقینا بڑے اختلال کا باعث ہوتا۔ دجل وفریب کی فراوانی اور قوت وشدت کی وجہ سے خصوصاً جب سائنس کی ترقیوں نے دجالیت کی نئی نئی اور پیچیدہ