رہنمائی کو قبول کر لیتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد رواج یا تقلید آباء کا سادہ جذبہ ان باطل عقائد واعمال کا زبردست محافظ بن جاتا تھا۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرو۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ میں اہل باطل نے اپنی دانست میں جو سب سے بڑی دلیل پیش کی ہے وہ تقلید آباء ہے جو ضلال وگمراہی کی بہت ہی سادہ اور بدوی قسم کی بنیاد ہے۔
بخلاف اس کے دور جدید کی ضلالت وگمراہی میں وہ سادگی اور سذاجت نہیں ہے۔ بلکہ دجل وفریب اس کی روح اور اس کی حقیقت ہے۔ اس دور کو ہم بالکل بجا طور پر دجالی دور کے نام سے موسوم کریں گے۔ یہ عنوان اس کی حقیقت کا ترجمان اور دور قدیم کے مقابل میں اس کا امتیازی نشان ہے۔
دور جدید کے اہم حوادث وانقلابات اور مذہبی رجحانات کو دیکھو تو تمہیں نظر آئے گا کہ خاتم النبیینﷺ کی اعلیٰ تعلیمات اور واضح ہدایت کا مقابلہ کرنے کے لئے شیطان نے بالکل نیا پینترا بدلا ہے اور خیر خالص سے جنگ کرنے کے لئے بالکل نیا نقشہ جنگ (Warstrategy) بنایا ہے۔ جس میں جنگی چالیں (Tagtics) بھی نئی استعمال کر رہا ہے۔ مگر ان سب کی مشترک روح دجل ہے۔ دلیل وبرہان کے محاذ پر شکست کھانے کے باوجود باطل کو اس طرح پیش کرنا کہ اچھے اچھے اہل نظر کو اس پر حق کا دھوکا ہو جائے اور حق کی ایسی تصویر کھینچنا کہ وہ باطل دکھائی دے۔ ظلم کو ایسا لباس فریب پہنانا کہ وہ عین عدل نظر آئے اور عدل کے چہرے کو اس طرح بگاڑنا کہ اس پر ظلم کا گمان ہو۔ مصیبت کا ایسا میک اپ کرنا کہ لوگ اسے عین راحت خیال کریں اور راحت کو اس طرح مسخ کرنا کہ آدمی اس کی تصویر سے بھی ڈریں۔ مختصر یہ کہ دجالیت وفریب کاری اس دور کی ہر باطل تحریک اور ہر ضلال کا عامل غالب (Domaina Ntfactor) ہے۔
شرک پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔ مگر دور قدیم کا مشرک سنگین بتوں کی پرستش کرتا تھا اور کھلم کھلا اپنے شرک کا اقرار کرتا تھا۔ آج کا مشرک پتھروں کے بت نہیں تراشتا۔ بلکہ وہم وخیال کے تیشہ سے کام لیتا ہے۔ وطن، قوم، ملک، انسانیت، نیچر وغیرہ کے ناموں سے نہ معلوم کتنے بتوں کی پرستش آج بھی رائج ہے۔ لیکن کسی کی کیا مجال جو ان مشرکوں کو مشرک کہہ دے۔ ماڈرن شرک، دجالی شرک ہے جس کے ساتھ مشرک توحید کا بھی دعویدار ہوتا ہے۔ آخرت سے روگردانی کر کے دنیا کو جنگ بنادینے کی دجالی خواہش، دور جدید میں جنون کے حدود میں پہنچ گئی ہے۔ پہلے نظام سرمایہ داری اور صنعتی انقلاب نے اس منزل تک پہنچانے کا بلند بانگ دعویٰ کیا۔ مگر کچھ مدت