اسلام بھی ایک ایسی ہی عمارت ہے جس کا نقشہ مصور حقیقی کا بنایا ہوا ہے اور جس کی تعمیر خالق حقیقی نے فرمائی ہے۔ اس عظیم وحکیم ذات نے اس تعمیر میں قیامت تک آنے والے ہر انقلاب وتغیر کی رعایت رکھی ہے اور یہ عمر عالم کے آخری لمحہ تک پیدا ہونے والے ہر مسئلہ کا تشفی بخش جواب ہے۔
ہماری تقریر سے ہر گز یہ غلط فہمی نہ ہونا چاہئے کہ ہم دنیا کے تغیرات وانقلابات کا انکار کر رہے ہیں۔ بدیہیات کے انکار کی جرأت کسے ہوسکتی ہے؟ ہمیں جس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ جن انقلابات کو دنیا نے اہمیت دی ہے وہ درحقیقت اس اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔
دراصل وہ ایک عظیم الشان اور اصولی انقلاب کے فروع اور ایک کلی انقلاب کے جزئیات ہیں اور قیامت تک جتنے انقلابات بھی ہوںگے۔ سب اسی کے جزئیات ہوںگے۔ اسلام نے اس کلی واصلی انقلاب کو ملحوظ رکھ کر اپنی دعوت وتعلیم کی تبلیغ کی۔ اس لئے اس کی تعلیم دائمی وابدی ہے۔ اس میں کسی قسم کے تغیر وانقلاب سے تغیر وتبدیلی کی احتیاج نہیں ہوسکتی۔ وہ اصلی وکلی انقلاب کون ہے؟ اس کے لئے ذرا تفصیل کی حاجت ہے۔ ہدایت وضلال کے نقطۂ نظر سے تاریخ عالم پر نظر ڈالئے۔ آپ اسے دو بڑے حصوں پر منقسم کر سکتے ہیں۔ مندرجہ بالا اعتبار سے اس کے دو دور ہیں اور ان دونوں کے درمیان ایک حد اصل آپ کو نظر آئے گی۔ دور قدیم اور دور جدید کی اصطلاح مقرر کرنے سے بیان میں سہولت ہو جائے گی۔ حد فاصل کو درمیانی دور کہنا مناسب ہے۔
دور قدیم کی انتہاء بعثت خاتم النبیینﷺ پر ہوتی ہے اور دور جدید خیرالقرون کی کچھ مدت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ دور قدیم میں ہم انبیاء علیہم السلام کا ایک نورانی سلسلہ دیکھتے ہیں جو نور ہدایت پھیلانے اور ظلمت وضلال کو دور کرنے کے لئے مبعوث ہوئے۔ ان کے مقابلہ میں آئمہ ضلال بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔ جو شیطان کے کارندوں کی حیثیت سے عالم میں ضلال وگمراہی پھیلاتے رہے۔ دونوں چیزیں ہمیں پہلو بہ پہلو نظر آتی ہیں۔ لیکن اس دور کے ضلال میں ہم ایک سذاجت اور سادگی پاتے ہیں۔ گمراہی اور ہدایت سے محرومی کی دو ہی صورتیں اس طویل زمانہ میں ملی ہیں۔ ضد اور ہٹ دھرمی یا جہالت وبدفہمی مبلغین ضلال وگمراہی اٹھتے تھے تو عوام کی خواہشوں اور جذبات کو برانگیختہ کرتے تھے یا اپنے علمی تفوق یا اقتدار کی وجہ سے اپنی گمراہیوں کو ان کی طرف منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ عوام اپنی حماقت یا مغلوبیت کی بناء پر ان کی