والے ہر نئے مسئلہ کو حل کرتے رہے اور ہر سوال کا جواب دیتے رہے۔ ان کے ہوتے ہوئے نہ کبھی نئے نبی کی ضرورت محسوس ہوئی نہ کسی نئے رسول کی۔
مغالطے کا جواب اور اس کی لغویت کی توضیح تو ختم ہوگئی۔ مگر بات میں بات نکلتی ہے۔ دوران تحریر ذہن ایک اور نکتہ تک جا پہنچا۔ جس کا تذکرہ مفید بھی ہے اور مقام کے مناسب بھی۔ اس لئے سپرد قلم کرتا ہوں۔ منکرین ختم نبوت کے علاوہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی ایک خاصی جماعت اس مغالطہ میں مبتلا ہے کہ صدیوں پرانا دین زمانہ کے نئے تقاضوں کو کس طرح پورا کر سکتا ہے اور نئے نئے مسائل کا حل کیسے پیش کر سکتا ہے؟ گذشتہ ابواب میں اس سوال کا تشفی بخش اور مسکت جواب پیش کیا جاچکا ہے۔ لیکن یہاں ہمیں یہ دکھانا ہے کہ درحقیقت اس سوال کی کوئی ٹھوس اور مضبوط بنیاد ہی موجود نہیں۔ زمانہ کے جن تغیرات کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ انہیں اصول واحکام اسلام کے اعتبار سے کوئی بھی اہمیت حاصل نہیں۔ بلکہ اس اعتبار سے وہ کالعدم اور بالکل غیر اہم ہیں ۔ ہم پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ خاتم النبیینﷺ کے مقدس دور کے بعد سے اب تک زمانہ میں کوئی ایسا انقلاب وتغیر نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ہوسکتا ہے۔ جس کا لحاظ کتاب وسنت میں پہلے ہی سے نہ کر لیا گیا ہو۔ احکام اسلام کا لحاظ کیجئے تو ان انقلابات وتغیرات کی حیثیت جزئی تغیرات کی باقی رہ جاتی ہے جو ایک زمانہ میں بھی ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ بطور مثال فرض کیجئے کہ ایک مبصر اور دور اندیش انجینئر نے ایک ایسی عمارت تعمیر کی جس میں ہر موسم کی رعایت رکھی گئی ہے موسم سرما میں اس میں سرد ہوا کے تھپیڑوں کو روکنے کا پورا انتظام ہے۔ آثار اور چھت کا حجم ایسا رکھا گیا کہ موسم سرما میں برف باری اور موسم گرما میں دھوپ کی تپش عمارت کے اندر کوئی اثر نہ کر سکے۔ کھڑکیوں اور دروازوں کی ساخت ایسی رکھی گئی ہے کہ دھوپ کے آنے اور روکنے کا پورا بندوبست ہو جائے۔ بارش سے تحفظ کا بھی پورا سامان ہے۔ ایسی عمارت پر موسمی تغیرات کا کیا اثر ہوگا؟ بالفرض وہ عمارت دنیا کے اس حصہ میں تھی جہاں گرمی زیادہ پڑتی تھی۔ لیکن طبعی اسباب نے کروٹ لی اور موسم میں تغیر عظیم نمایاں ہوا۔ یعنی وہ خطہ گرم کے بجائے سرد ہوگیا اور بادسموم کی جگہ برف باری نے لے لی۔ دوسرے مکانات کے لحاظ سے یہ بہت بڑا انقلاب ہوگا۔ جو انہیں ناقابل رہائش بنادے گا۔ مگر اس عمارت کے اعتبار سے کوئی تغیر ہی نہیں ہوا۔ اس لئے کہ موسم کی اس حالت کی رعایت اس میں پہلے ہی کر لی گئی تھی۔ دوسرے مکانوںکے مکین مبتلائے مصیبت وپریشانی ہوں گے مگر اس عمارت کو آباد کرنے والے بدستور سابق آرام واطمینان سے زندگی گذار رہے ہوںگے۔