گے اور امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ میں شامل ہوکر اپنے برکات وفیوض سے امت کو مستفیض فرمائیں گے۔
ہوسکتا ہے کہ کسی کو یہ اشکال پیش آئے کہ یہ صورت واقعہ تو ختم نبوت کے منافی معلوم ہوتی ہے۔ محمد رسول اﷲﷺ پر سلسلۂ نبوت ختم ہو جانے کے بعد کسی نبی کے تشریف لانے کے کیا معنی؟۔
بادی النظر میں یہ اشکال کچھ وقیع نظر آتا ہے۔ لیکن غور کیجئے تو صرف سطح بینی اور قلت فکر کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ پچھلے صفحات ملاحظہ فرمائیے ہم نے ختم نبوت کی تشریح کے سلسلہ میں ہمیشہ یہ الفاظ استعمال کے ہیں کہ محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کسی نبی کی بعثت نہیں ہوسکتی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی نئے شخص کو ابتدائً یہ منصب عظیم عطاء فرماکر اور سند نبوت دے کر نہیں بھیجا جاسکتا۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ انبیاء سابقین میں سے کوئی نبی بھی دوبارہ دنیا میں نہیں تشریف لاسکتے۔ بعثت کے معنی یہ ہیں کہ حق تعالیٰ نے اپنے کسی بندے کو تاج نبوت سے سرفراز فرماکر ہدایت خلق اﷲ کا کام سپرد فرمائیں۔ جو پہلے ہی منصب نبوت پر سرفراز ہوچکے ہوں۔ انہیں دنیا میں دوبارہ بھیج دینے کو بعثت نہیں کہتے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت محمد رسول اﷲﷺ سے پہلے ہو چکی اور وہ بنی اسرائیل میں اپنا کام انجام دے کر زندہ آسمان پر تشریف لے گئے۔ نہ انہیں طبعی موت آئی نہ شہید کیا جاسکا۔ جیسا کہ قرآن مجید سے صاف عیاں ہے۔ اب اگر وہ دوبارہ آسمان سے دنیا میں تشریف لائیں تو یہ ختم نبوت کے منافی کیوں ہے؟ اور اس سے سلسلۂ نبوت کا جاری رہنا کس طرح لازم آتا ہے؟
مثال ذیل جواب کی مزید توضیح کر دے گی۔ ایک شخص کسی ملک کی سول سروس میں داخل ہوکر کسی صوبہ کا گورنر مقرر ہوتا ہے اور ریٹائرڈ ہونے کے بعد کسی دوسرے ملک چلا جاتا ہے۔ کچھ مدت کے بعد وہ اسی صوبہ میں پھر آتا ہے۔ مگر گورنر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عام شہری کی حیثیت سے تو کیا اس سے موجودہ گورنر کے عہدہ اور اعزاز میں کوئی فرق پیدا ہو جائے گا؟ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس صوبہ میں اس وقت دوگورنر موجود ہیں؟ اس کے ساتھ سابق گورنر کے پاس جو سند سول سروس کی ہے وہ بھی باقی رہے گی اور اس کے اس اعزاز میں بھی کوئی فرق نہیں آسکتا۔ اسی