محمد رسول اﷲﷺ آخری نبی ہیں اور آنحضورﷺ کے بعد قیامت تک کسی نبی کی بعثت نہیں ہوسکتی۔ صحابہ کرامؓ کا اس مسئلہ پر اجماع ایک بدیہی واقعہ ہے۔ مسیلمہ کذاب اگرچہ کلمہ گو تھا اور محمد رسول اﷲﷺ کی نبوت ورسالت کو تسلیم کرتا تھا۔ مگر باوجود اس کے محض انکار ختم نبوت اور ادعائے نبوت کی وجہ سے صحابہ کرامؓ نے اسے مرتد قرار دے کر اسے خلاف جہاد فرمایا۔ اگر انہیں اس کا ادنیٰ خیال بھی ہوتا کہ اب کوئی دوسرا نبی آسکتا ہے تو کم ازکم اس کی تحقیق ضرور کرتے۔ لیکن تحقیق وتفتیش کی ضرورت نہ سمجھنا اس کی روشن دلیل ہے کہ انہیں خاتم النبیین کے بعد کسی نبی کے آنے کا ادنیٰ خیال بھی نہ تھا۱؎۔ اس کے علاوہ ختم نبوت کے بارے میں ان کی تصریحات بھی بکثرت منقول ہیں۔
اجماع کے متعلق چند نقول درج ذیل ہیں۔ ’’لانہ اخبر انہﷺ ختم النبیین ولا نبی بعدہ واخبر عن اﷲ تعالیٰ انہ خاتم النبیین واجمعت الامۃ علی حمل ہذا الکلام علے ظاہرہ (شفاء قاضی عیاض ج۲ص۲۴۷)‘‘ {اس لئے کہ آنحضورﷺ نے خبر دی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور آنحضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں مبعوث ہوگا۔ نیز اﷲتعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور امت کا اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہری معنی میں محمول ہے۔ (یعنی آپﷺ آخری نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں مبعوث ہوںگے)}
علامہ ابن حجر مکیؒ اپنے فتاویٰ حدیثیہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ومن اعتقد وحیا بعد محمدﷺ کفر باجماع المسلمین‘‘ {جو شخص محمد رسول اﷲﷺ کے بعد بھی نزول وحی کا عقیدہ رکھے وہ باجماع مسلمین کافر کہا جائے گا۔}
۱؎ بعض قادیانی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبرؓ نے اسود ومسیلمہ کے خلاف جہاد اس لئے کیا کہ انہوں نے بغاوت کی تھی۔ ان کے دعوائے نبوت کی وجہ سے جہاد نہیں کیا۔ اس کا جواب حدیث سے ظاہر ہے۔ موٹی سی بات ہے کہ اگر ان میں ان لوگوں کی نبوت کا احتمال بھی ہوتا تو تحقیق واقعہ کے بغیر ان کے خلاف جنگ کی ہمت نہ کرتے۔ اس احتمال کی بنیاد پر بغاوت کے بھی کوئی معنی نہیں۔ بالغرض اگر معاذ اﷲ وہ نبی ہوتے تو خلیفہ کو ان کی اطاعت کرنا چاہئے تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کا پختہ عقیدہ تھا کہ آنحضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور اب قیامت تک جو شخص نبوت پانے کا مدعی ہو وہ مرتد اور کذاب ہے۔ اس لئے انہوں نے بلا تأمل مسلمہ وغیرہ مدعیان نبوت کو مرتد قرار دے کر ان کے خلاف جہاد فرمایا۔