۱… وسط، عربی میں بہترین کے معنی میں آتا ہے۔ ’’خیرامۃ‘‘ سے جس طرح استدلال کیاگیا تھا اسی طرح اس سے بھی ہوسکتا ہے۔
۲… اس امت کو سب امتوں پر شاہد اور گواہ فرمایا گیا ہے۔ اگر کوئی دوسرا نبی آئے گا تو اس کی امت آخر میں ہونے کی وجہ سے شاہد ہوگی۔ نہ کہ امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری امت ہے اور محمدﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوسکتا۔ جس کی امت کو آخری امت کہا جاسکے۔
۳… سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ: ’’الرسول‘‘ سے مراد بداہتہً محمد رسول اﷲﷺ ہیں۔ اگر ان کے بعد بھی انبیاء کی بعثت ہوسکتی تو سب شہید اور گواہ ہوتے اور عبارت یوں ہوتی۔ ’’ویکون الرسل۰ علیکم شہیدا‘‘ واحد کا صیغہ صاف طور پر بتارہا ہے کہ آنحضورﷺ آخری رسول اور نبی ہیں۔
۴… اسی طرح اگر آنحضورﷺ کے بعد اور کوئی نبی مبعوث ہوسکتا تو ’’ولتکونوا شہداء علے الناس‘‘ کے بجائے ’’ولتکونوا مع النبی اومع النبیین شہداء علی الناس‘‘ ہوتا۔ یعنی ان انبیاء کا تذکرہ بھی ضرور ہوتا۔ نبی کی اہم ہستی کو ہرگز ترک نہ فرمایا جاتا۔ ان دلائل سے صاف ظاہر ہے کہ محمد رسول اﷲﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کسی نبی یا رسول کی بعثت نہیں ہوئی اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔
تنبیہ! ان آیات کے علاوہ بکثرت آیات اس مضمون کو بیان کر رہی ہیں۔ مگر ہم بخوف طوالت انہیں پر اکتفاء کرتے ہیں۔
حدیث
اگرچہ قرآن مجید کی ان آیات باہرہ اور براہین قاصرہ کے بعد حدیث سے استدلال کی احتیاج باقی نہیں رہتی۔ لیکن ہم تبرکاً حدیث نبوی کی روشنی میں بھی اس عقیدے پر نظر ڈالتے ہیں۔
ختم نبوت کا عقیدہ قرآن مجید کی طرح حدیث میں بھی صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ بخاری شریف کی مندرجہ ذیل روایت پر نظر کیجئے۔
’’عن ابی ہریرۃؓ ان رسول اﷲﷺ قال ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنیٰ بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویتعجبون لہ ویقولون ہلاً وضعت ہذہ اللبنۃ قال فانا