اس لئے کہ جو چیز نفس پر گراں ہو انسان کا فطری میلان اس کے ترک کی جانب ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی طبعی ہے کہ جب کسی کام کا اعلیٰ ذمہ دار موجود ہو یا اس کے وجود کی توقع ہو تو ادنیٰ ذمہ داری رکھنے والے ہاتھ پاؤں ڈال دیتے ہیں اور کام کو اس کے سپرد کر دیتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید وحدیث شاہد ہے کہ پچھلی امتوں میں انسان کی یہ طبعی کمزوری ہلاکت آفریں اثرات دکھا چکی ہے۔ بنو اسرائیل کا باربار گمراہ ہونا اور باربار عذاب الٰہی میں مبتلا ہونا اسی سبب کارہین منت تھا کہ انہوں نے امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ترک کر دیا اور اس کے بجائے ان کے صلحاء ضلال عام کے وقت کسی نئے نبی کی بعثت کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے تھے۔ اگر سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے بعد کسی نئے نبی کی بعثت کا امکان ہوتا تو اس امت کا بھی یہی حال ہوتا اور یہ ’’خیرامت‘‘ کے لقب سے کبھی ممتاز نہ ہوتی۔ اسے تکمیل مقاصد نبوت کا ذمہ دار بنانے اور اس منصب کا مستحق قرار دینے کے معنی ہی یہ ہیں کہ محمد رسول اﷲﷺ کے بعد قیامت تک کسی نبی کی بعثت نہ ہوگی اور سلسلۂ نبوت آنحضور اور احنافداہ پر ختم کردیا گیا۔
آیت شہادت امت
اس سے ہماری مراد مندرجہ ذیل آیت ہے۔ ’’وکذالک جعلناکم امۃ وسطاً لتکونوا شہداء علے الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا (البقرہ:۱۴۳)‘‘ {اور ایسے ہی ہم نے تمہیں بہترین امت (خیرالامم) بنایا تاکہ تم سب لوگوں پر گواہ ہو اور رسول (ﷺ) تم پر گواہ ہوں۔}
یہ آیت بھی ختم نبوت کو بہت واضح طریقہ سے بیان کر رہی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وجۂ استدلال ذکر کرنے سے پہلے اس واقعہ کا تذکرہ کر دیا جائے۔ جس کی طرف آیت میں اشارہ ہے۔ جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے۔ اگرچہ استدلال وتفسیر اس تذکرہ پر موقوف نہیں۔ مگر اس سے توضیح مزید ہوگی اور بات صاف ہو کر سامنے آجائے گی۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن دوسرے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی ایمان نہ لانے والی امتیں اس بات سے انکار کر دیں گی کہ ان کے انبیاء نے انہیں دین کی دعوت دی تھی۔ اس وقت امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ انبیاء کی جانب سے شہادت دے گی کہ بے شک وہ سچے ہیں اور انہوں نے ان منکرین کو دعوت دی تھی۔ مگر یہ لوگ ایمان نہ لائے۔ اپنی امت کی صداقت کی شہادت خود نبی کریمﷺ دیں گے۔ اب وجہ استدلال ملاحظہ ہو۔