’’الناس۱؎‘‘ کا لفظ اس پوری انسانی جماعت کو بتا رہا ہے جو بعثت محمدﷺ کے وقت سے قیامت تک وجود میں آئی یا آئے گی۔ یعنی پوری نوع انسانی کی تعلیم وتربیت امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کے سپرد کی گئی ہے اور اسے اس کار نبوت میں شریک وسہیم بنادیا گیا ہے۔ یہ اس امت کی خصوصیت خاصہ ہے کہ اسے اس مرتبہ عظمیٰ پر فائز فرمادیا گیا جو پچھلی امتوں میں سے کسی کو بھی نہیں عطاء فرمایا گیا۔ امم سابقہ میں دعوت دین کے لئے ایک نبی کے بعد دوسرے نبی کی بعثت ہوتی تھی۔ لیکن کسی امت کی بحیثیت امت اس مقصد عظیم کے لئے بعثت نہیں ہوئی۔ ’’اخرجت للناس‘‘ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے اس تاج کرامت سے صرف امت محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والتحیہ کو سرفراز فرمایا ہے اور یہ امت بحیثیت مجموعی دین کو پھیلانے اور دوسروں کی تعلیم وتربیت دینے پر مامور ہے۔ یہی اس کے وجود میں لانے کا مقصد ہے اور اسی کے لئے یہ حجاب عدم سے نکالی گئی۔ یا باہر لائی گئی ہے یا دوسرے الفاظ میں مبعوث فرمائی گئی ہے۔
نبی کا کام امت کے سپرد ہو جانے کے بعد کسی نئے نبی کی بعثت بالکل غیرضروری ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ جس کے لئے نبی کی بعثت ہوتی ہے وہ کام اس امت کے سپرد کر دیا گیا جو اسے انجام دیتی رہتی ہے۔ اب کسی نبی کی بعثت آخر کس کام اور کس مقصد کے لئے ہوگی؟
’’تأمرون بالمعروف‘‘ الآیہ نے اس مسئلہ کو اور بھی صاف اور بے غبار کر دیا۔ بعثت انبیاء کے مقصد کا خلاصہ دو لفظوں میں کیا جاسکتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ کام اس امت کے سپرد کر دیا گیا اور یہ بھی فرمادیا گیا کہ تم ان دونوں مقاصد کو پورا کر رہے ہو۔ اس کے بعد کسی نبی کی بعثت کا تصور کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ کسی نئے نبی کی بعثت سے یہ اندیشہ ہے کہ امت اس منصب عظیم سے معزول کر دی جائے۔ اگر بالفرض کفرض المحال کوئی نبی مبعوث ہویا اس کی بعثت کی توقع ہو تو بہت قوی اندیشہ ہے کہ امت بحیثیت مجموعی اس کام کو چھوڑ بیٹھے۔
۱؎ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ الف لام میں اصل استغراق ہے۔ یعنی جس لفظ پر الف لام داخل ہو اس سے اس کے سب افراد مراد ہوتے ہیں۔ مخصوص افراد مراد لینے کے لئے کسی خاص دلیل کی ضرورت ہے جو یہاں مفقود ہے۔ بلکہ اس کے خلاف ایک دلیل یہ موجود ہے کہ بعض مخصوص انسان مراد لینے سے ’’خیر امۃ‘‘ کی کوئی خاص فضیلت اور خصوصیت نہیں ظاہر ہوتی۔ علاوہ بریں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مخصوص انسان کون ہیں۔ جن کے لئے اس امت کی بعثت ہوئی؟ اور ان کی خصوصیت کی وجہ کیا ہے؟ گویا آیت میں خواہ مخواہ ابہام کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ جس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ قرآن مجید کی صفت مبین کے تقاضہ کے خلاف ہے۔