رہ جاتی ہے اور کسی نئے نبی کا کام ہی کیا باقی رہتا ہے؟ افضل الانبیاء کی تعلیم دینی وروحانی تعلیم کی اعلیٰ ترین اور انتہائی منزل ہے۔ کسی دوسرے نبی کی تعلیم اس کے مساوی نہیں ہوسکتی اور نہ افادیت۱؎ وکمال کے لحاظ سے تعلیمات محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کے مساوی ہوسکتی ہے۔ ایسی حالت میں کسی دوسرے نبی کے آنے سے کیا فائدہ؟ بلکہ کسی دوسرے نبی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا اور تعلیمات محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نظر انداز کرنا تو بجائے مفید ہونے کے مضر ہوگا۔ بایں معنی کہ وہ امت کو اس مرتبہ کمال سے تنزل وہبوط پر مجبور کرے گا۔ جو تعلیمات محمدیہﷺ پر عمل کی وجہ سے اسے حاصل تھا یا حاصل ہو سکتا تھا۔ اس کی مثال یہ ہوگی کہ جیسے ایم اے پاس اشخاص کو آٹھویں یا نویں درجہ کا نصاب تعلیم پڑھایا جائے اور اس مقصد سے کسی ٹیچر کو مقرر کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ ترقی معکوس کسی طرح قرین عقل وفطرت نہیں ہوسکتی۔
آیت مقدسہ نے امت محمدیہﷺ کو خیرالامم کی سند عطاء فرماکر اس نکتہ لطیفہ کی طرف بہت واضح اشارہ فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ: ’’خیر امۃ یا خیر الامم‘‘ ہونے کی وجہ سے اب تمہیں علم کے لئے خیر الانبیائﷺ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف دیکھنے اور کسی دوسرے نبی کا انتظار کرنے کی احتیاج نہیں۔ علم ودانش کا بہترین خزینہ عامرہ تمہیں مل چکا۔ اب کسی دوسرے نبی کا انتظار کرنے کے بجائے اس خزانہ سے فائدہ اٹھاؤ اور متعلم کے بجائے معلم بنو۔ یعنی تم کمال کو پہنچ گئے۔ اب تمہارا کام یہ ہے کہ تعلیمات محمدیہﷺ کو دوسروں تک پہنچاؤ۔ خود عالم باعمل بن کر دوسروں کو عالم باعمل بناؤ۔ تم کامل ہو چکے۔ اب دوسروں کو مرتبہ کمال تک پہنچانے کا کام انجام دو اور اپنے نبی اکرمﷺ کے سچے جانشین بنو۔
آیت مقدسہ نے ’’خیر امۃ‘‘ کے لفظ ہی سے ختم نبوت کی طرف اشارہ فرمادیا۔ لیکن ’’اخرجت للناس‘‘ کا فقرہ تو اس مضمون کی تنویر وتشریح میں نور علی نور کا مصداق ہے۔
۱؎ اس سے یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہئے کہ کسی نبی کی تعلیم فی نفسہ (معاذ اﷲ) ناقص تھی۔ جیسا کہ بہت سے بے ادب اور ناسمجھ واعظین کہہ دیا کرتے ہیں۔ ہر نبی کی تعلیم اس کے دور اور اس کی امت کے لحاظ سے بالکل کامل اور مفید ترین تھی۔ مقصد صرف یہ ہے کہ بعثت محمدیﷺ کے بعد اور امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کے لئے کسی نبی کی تعلیم اس قدر مفید اور کامل نہیں جس قدر محمد رسول اﷲﷺ کی تعلیم مفید اور کامل ہے۔