آیت خیریت امت
اﷲتعالیٰ نے جس طرح اپنے آخری نبی ورسول محمد مصطفیٰﷺ کو خیرالانبیاء والرسل اور افضل الخلائق بنایا۔ اسی طرح آپؐ کی امت کے سر پر خیرالامم ہونے کا تاج کرامت رکھا۔ ارشاد الٰہی ہے: ’’کنتم خیر امۃ اخرت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون بااﷲ (آل عمران:۱۱۰)‘‘ {تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔}
آیت مقدسہ نے امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کے اس شرف عظیم کا اعلان فرمانے کے ساتھ خیرالانبیاء والرسل پر سلسلہ نبوت رسالت ختم ہونے کی طرف بھی بلیغ اشارہ فرمایا ہے۔ دونوں مضمونوں کی لطیف مناسبت ارباب ذوق پر مخفی نہیں۔ کمالات نبوت ورسالت سید دو عالمﷺ پر ختم فرمادئیے گئے۔ اس لئے وہ خیرالانبیاء والرسل ہیں۔ اسی طرح امتیوں کے کمالات ان کی امت پر ختم فرمادئیے گئے۔ اس لئے وہ خیرالامم ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ امت کے کمالات روحانی اپنے نبی کے کمالات کا عکس ہونے کی وجہ سے اسی کے طفیل میں حاصل ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ امت خیرالرسل والانبیاء کی امت ہے۔ جنہیں اعلیٰ ترین اور انتہائی کمالات نبوت عطاء فرمائے گئے ہیں۔ یعنی مرتبۂ نبوت ورسالت کے لئے جو انتہائی کمالات اﷲتعالیٰ نے مقرر ومقدر فرمائے وہ سب آپ کو عطاء فرمادئیے گئے۔ جو کسی دوسرے نبی کو نہیں حاصل ہوئے۔ اس لئے اس کا انعکاس آپ کی امت میں ہونا لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ ان کمالات کی حامل ہے جو کسی دوسری امت کو نہیں عطاء فرمائے گئے اور جس پر امتوں کے کمالات روحانیہ اور ارتقاء ونفسی کی انتہاء ہوتی ہے یہ ایک ظاہر اور مسلمہ حقیقت ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت اسی لئے ہوتی ہے کہ ان کے توسط اور ان کی تعلیم کی برکت سے نوع انسانی روحانی کے مدارج ارتقاء طے کر کے قرب الٰہی کے وہ مراتب حاصل کرے جو اس کے لئے ازل میں مقدر فرمائے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی اس اعلیٰ ترین منزل پر پہنچ جائے۔ جس کے اوپر کوئی منزل باقی نہیں رہتی۔ یہی معنی اس کی تکمیل کے ہیں۔ امم عالم میں سے جو امت اس درجہ علیا اور کمال اعلیٰ پر فائز ہو جائے اسی کو ’’خیرامۃ یا خیر الامم‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس مرتبہ عظمیٰ اور فوز کبریٰ تک رسائی کے بعد کسی نبی کی بعثت کی کیا حاجت وضرورت باقی