کی وجہ سے اسے اس نعمت عظمیٰ کے لئے مخصوص فرمایا گیا؟ اس کے ساتھ یہ سوال بھی باقی رہے گا کہ اس مضمون کو صاف اور غیر مبہم الفاظ میں کیوں نہ واضح فرمایا گیا؟ اس سے روشن ہو جاتا ہے کہ یہ احتمال بھی قطعاً باطل اور غلط ہے۔
ان دونوں احتمالات کے باطل ہونے کے بعد اس چیز میں ذرہ برابر بھی خفا نہیں رہتا کہ آیت کی تفسیر میں تیسرا یہی احتمال (ج) صحیح اور حق ہے۔
یعنی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ لکم میں ضمیر خطاب کے ذریعہ سے زمانہ نزول آیت سے لے کر قیامت تک آنے والی پوری امت محمدیہ ﷺ کو خطاب کیا جارہا ہے اور یہ مژدہ سنایا جارہا ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ایسا دین عطاء فرمایا ہے جس کی مدت محدود نہیں ہے۔ بلکہ عمر عالم کی آخری ساعت تک یہ تمہاری ہدایت اور تمہاری اخروی ودنیاوی مصالح وفلاح کے لئے بالکل کافی وشافی ہے۔ یہ ایک سدابہارچمن ہے۔ جس میں خزاں کا گذر بھی نہیں ہوسکتا۔ اس میں ترمیم وتنسیخ کی کوئی گنجائش کبھی نہیں نکل سکتی۔ اس دین کامل کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے دین کی ضرورت وحاجت بلکہ گنجائش ہی کہاں رہتی ہے؟ اور جب کسی نئے دین کی احتیاج نہیں تو کسی نئی بعثت ونبوت کی کیا حاجت باقی رہتی ہے؟ گویا تکمیل دین کے معنی یہ ہیں کہ نبوت ورسالت محمد رسول اﷲﷺ پر ختم ہوگئی اور آنحضورﷺ کے بعد قیامت تک کسی نبی ورسول کی بعثت نہیں ہوسکتی۔
۳… ’’اتممت علیکم نعمتی‘‘ کا فقرہ بھی ختم نبوت کو روشن کر رہا ہے۔ خطاب پوری امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کو ہے۔ ’’لکم‘‘ کو خطاب عام تسلیم کرنے کے بعد ’’علیکم‘‘ میں بھی خطاب عام ہی ماننا پڑے گا۔ اس کے بعد ختم نبوت کی طرف اشارہ بہت واضح ہو جاتا ہے۔ عربی زبان میں کسی چیز کے تمام اور تام ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس پر مزید اضافہ کی گنجائش نہ رہے۔ اس مفہوم کی روشنی میں آیت کی شرح یہ ہوگی کہ عطا نعمت کی جو آخری حد بنی نوع انسان کے لئے مقرر تھی ختم ہوچکی اور اس آخری مکمل ترین اور اعلیٰ ترین نعمت سے امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کو نوازا جاچکا۔ اب نعمت کا کوئی ایسا درجہ باقی نہیں رہا جو اور کسی کو دیا جائے۔
معلوم ہے کہ اس نعمت سے کوئی دنیاوی نعمت نہیں مراد ہوسکتی۔ بلکہ اخروی نعمت ہی مراد ہوگی۔ اس میں محمد رسول اﷲﷺ کا اعلیٰ ترین درجہ نبوت پر فائز ہونا بھی داخل ہے اور اس امت کا بہترین درجات اخرویہ کا مستحق ہونا بھی۔ اسی طرح اس دین کا کامل ترین دین ہونا بھی دوسرے