ج… پوری امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ مخاطب ہو۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا اور دوسرا احتمال بالکل غلط ہے اور صحیح صرف تیسرا احتمال ہے۔
احتمال اوّل کی غلطی مندرجہ ذیل دلائل سے روشن ہو جاتی ہے۔
اوّلا… اگر پہلا احتمال صحیح ہو تو اس کے معنی یہ ہوںگے کہ دین کا کمال صحابہ کرامؓ تک محدود تھا اور دور صحابہؓ گذرنے کے بعد ہی معاذ اﷲ اسلام ناقص اور ہدایت امت کے لئے ناکافی ہوگیا۔ اگر ایسا ہے تو دور صحابہؓ کے فوراً بعد کسی نبی کو مبعوث ہونا چاہئے تھا۔ حالانکہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔
ثانیاً… اس وجہ سے کہ صورتحال کے صحیح ہونے کی صورت میں حقائق اور واقعات سے انکار لازم آتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ دور صحابہؓ کے بعد بھی دین محمدیﷺ مصالح امت اور ہدایت خلق اﷲ کے لئے کفایت کرتا رہا اور کسی موقع پر بھی اس کی تنگ دامانی کا ظہور نہیں ہوا۔ اگر لکم کے مخاطب صرف صحابہ کرامؓ تھے تو ان کے بعد صدیوں تک اس دین کے کمال کا ظہور کیوں ہوتا رہا اور کسی نئے نبی کی ضرورت کیوں نہ محسوس ہوئی؟
ثالثاً… اس بناء پر کہ کمال دین کو دور صحابہؓ کے ساتھ مخصوص سمجھنے سے لازم آتا ہے۔ معاذ اﷲ قرآن مجید اور خود صاحب قرآنﷺ نے اﷲتعالیٰ کے راستہ کو پوشیدہ رکھا۔ کیونکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ اس مضمون کو صاف صاف کیوں نہ بیان فرمایا گیا؟ اور اس کی تصریح کیوں نہ فرمائی گئی کہ اس دین کا دور فلاں امت تک ختم ہوجائے گا۔ اس کے بعد آنے والے مسلمانوں کو نئی ہدایت کا انتظار کرنا چاہئے؟ ان سب دلائل سے آفتاب نصف النہار کی طرح بلکہ اس سے بھی زیارہ روشن ہے کہ آیت کی تفسیر احتمال اوّل کی بناء پر کرنا بالکل غلط اور تفسیر بالباطل ہے۔ احتمال ثانی (ب) کا باطل اور غلط ہونا بھی بالکل ظاہر وباہر ہے۔ کمال دین کو کسی مخصوص زمانہ کے ساتھ مقید ومحدود کرنا اور کسی محدود زمانہ کے مسلمانوں کو اس کا مخاطب قرار دینا ایک ایسا دعویٰ ہے جو دلیل وثبوت سے بالکل تہی دست اور قطعاً بے بنیاد ہے۔ قرآن وحدیث میں ادنیٰ اشارہ بھی اس کے متعلق نہیں مل سکتا۔ عقلی دلیل اس معاملہ میں موجود بھی ہوتی تو ناکافی وغیر معتبر ہوتی۔ چہ جائیکہ یہ اس سے بھی قطعاً محروم ہے۔ مختصر یہ کہ تارعنکبوت کے برابر بھی کوئی عقلی یا نقلی دلیل اس باطل مدعا پر قائم نہیں ہوسکتی۔ ایسی حالت میں اس احتمال کے قائل ہونے کو ادعائے باطل اور جرأت بے جا کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی پیدا ہوگا کہ وہ زمانہ کتنا ہے؟ اس کا تعین بھی دلیل شرعی کا محتاج ہوگا۔ پھر اگر تعین بھی فرض کر لیا جائے تو اس زمانہ کی کیا ایسی خصوصیت ہے جس