آیت اکمال دین
اس سے مندرجہ ذیل آیت مقدسہ کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (المائدہ:۳)‘‘ {آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کر لیا۔}
آیت کریمہ متعدد طریقوں سے ختم نبوت کے مضمون کو ظاہر کر رہی ہے۔ دین جب کامل ہوگیا تو کسی دوسرے نبی کی بعثت کی کیا حاجت باقی رہی؟ بے شک ہر نبی کا دین کامل تھا۔ ناقص کوئی بھی نہ تھا۔ مگر ان کا کمال علی الاطلاق نہیں تھا۔ بلکہ ان کے زمانہ اور ایک محدود وقت کے لئے تھا۔ دین محمدﷺ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کامل علی الاطلاق ہے اور اس کے کمال کو کسی خاص زمانہ اور وصف کے ساتھ مقید نہیں فرمایا گیا ہے۔ بلکہ مطلقاً بغیر قید زمانہ اور حالات اکملت لکم دینکم فرمایا گیا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ہر زمانہ اور ہر حالت میں کامل ہے اور تاقیام قیامت اس کے کمال کو زوال نہ ہوگا۔ ایسے دین کامل کی موجودگی میں کسی دوسرے نبی کی بعثت ہو تو آخر اس کا مقصد ومفاد کیا ہوگا؟
خاتم النبیین سے پہلے انبیاء کا سلسلہ صرف اس لئے جاری رہا کہ ہر نبی کا دین ایک محدود زمانہ کے لحاظ سے کامل تھا۔ اس دور کے گذرنے کے بعد وہ مصالح امت کے لحاظ سے ناکافی ثابت ہوا۔ اس لئے دوسرے نبی کی بعثت کی احتیاج ہوئی۔ محمد رسول اﷲﷺ کو جو دین عطا فرمایا گیا وہ ابدی وسرمدی ہے۔ اس کا کمال دائمی اور تاقیامت ہر زمانہ میں یہ مصالح امت کا کفیل ہے۔ اس لئے آنحضورﷺ کے بعد کسی نبی کی بعثت کی حاجت نہیں رہتی اور سلسلۂ نبوت آنحضورﷺ پر ختم فرمادیا گیا۔
دوسری وجہ دلالت اکملت لکم کی ضمیر خطاب سے ظاہر ہے۔ اس ضمیر سے خطاب کن لوگوں کو ہے؟ اس کے بارے میں عقلاً صرف تین احتمالات نکلتے ہیں۔
الف… مخاطب صرف وہ مسلمان ہوں جو نزول آیت کے وقت موجود تھے۔ ان کے بعد آنے والے مسلمان نہ ہوں۔
ب… ان مسلمانوں کے علاوہ بعد کے آنے والے مسلمان بھی مخاطب ہوں۔ مگر قیامت تک آنے والی پوری امت محمدیہﷺ مخاطب نہ ہو۔ کسی خاص اور محدود زمانہ تک ہونے والے مسلمان مخاطب ہوں۔