انبیاء ماسبق کے آخر میں تشریف لائے ہیں۔ اس کے ذکر سے فائدہ کیا؟ یہ تو ایک لغوبات ہوگی۔جیسے کوئی شخص دن کے وقت دھوپ میں کھڑے ہوکر اپنے قریب کے کسی آنکھوں والے سے کہے کہ اس وقت دن ہے۔ ظاہر بات ہے کہ قرآن مجید لغو سے پاک ہے۔
رابعاً… اس لئے کہ اگر آیت کا یہ مفہوم لیا جائے تو لازم آتا ہے کہ ہدایت اور ضلال خلط ملط ہو جائیں اور ایک ضروری عقیدہ مخفی ہو جائے۔ کیونکہ اس مفہوم کو لینے کے بعد بھی کم ازکم اتنا احتمال تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ النبیین میں سب انبیاء داخل ہوں۔ ایسی صورت میں آیت سے عقیدہ ختم نبوت اسی طرح سمجھ میں آئے گا۔ جس طرح مسلمانوں نے سمجھا ہے۔ ایسی صورت میں ایک اہم اور بنیادی عقیدہ کے بارے میں ابہام ہوگا اور یہ بات قرآن مبین اور حق تعالیٰ کی شان سے بعید ہے کہ وہ ایسے اہم عقیدے کے متعلق جس پر کفر وایمان کا مدار ہے۔ ابہام واشتباہ کا طرز اختیار کریں۔ اگر حق تعالیٰ کی مراد یہی ہوتی جو مخالفین بیان کرتے ہیں تو الفاظ مختلف ہوتے۔ مثلاً خاتم بعض الانبیاء یا خاتم الانبیاء الذین سبقوا وغیرہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ یہاں پر الف لام کو عہد کے لئے لینا بالکل غلط اور باطل ہے اور آیت کا مفہوم یہی ہے جو اہل سنت کا مسلک وعقیدہ ہے۔ یعنی آنحضورﷺ سب انبیاء کے خاتم ہیں اور آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آسکتا۔
آیت ختم نبوت آپ دیکھ چکے ہیں۔ یہ تو اس مسئلے میں نص جلی اور برہان روشن ہے۔ لیکن قرآن مجید نے اس پر اکتفا نہیں فرمایا۔ بلکہ اﷲ رب العالمین نے اس عظیم الشان مضمون کو اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر مختلف عنوانات سے واضح فرمایا ہے۔ پیرایہ بیان مختلف ہے۔ مگر یہ مضمون ثابت اور روشن ہے۔
آیت اظہار دین
سورۂ فتح کھولئے۔ یہ آیت آپ کی آنکھیں روشن کر دے گی۔
’’ھو الذی ارسل رسولہ باالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفیٰ بااﷲ شہیدا (الفتح:۲۸)‘‘ {اﷲ کی ذات وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین لے کر بھیجا۔ تاکہ اسے ہر دین پر غالب فرمادے اور اﷲ کو گواہی کافی ہے۔}
ظاہر ہے کہ الدین میں الف لام استغراق کے لئے ہے۔ کلہ کا لفظ اس کی کھلی ہوئی دلیل ہے۔ علاوہ بریں کوئی دین معہود مراد لینے کی کوئی دلیل اور وجہ بھی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ محمد رسول اﷲﷺ کا تعلیم کیا ہوا دین ہر دین پر غالب رہے گا اور چونکہ اس غلبہ سے کسی وقت معین