یہ مقدس آیت اس باب میں نص قطعی اور برہان جلی ہے جو صراحت کے ساتھ رسول اﷲ ﷺ کو آخری نبی اور انبیاء کا ختم کرنے والا ظاہر کر رہی ہے۔ عربی زبان میں خاتم کے معنی یہی ہیں۔
’’خاتمہم وخاتمہم آخرہم (بکسر المیم وبفتح المیم) ومحمد رسول اﷲﷺ خاتم الانبیاء علی وعلیہم الصلوٰۃ والسلام وخاتم آخرالقوم کالخاتم ومنہ قولہ تعالیٰ خاتم النبیین ای آخرہ (لسان العرب ج۴ص۲۵)‘‘ {کسی جماعت کے خاتم یا خاتم دونوں کے معنی ان کے آخر کے ہیں اور محمد رسول اﷲﷺ انبیاء علیہم السلام کے خاتم ہیں۔ خاتم قوم اور خاتم دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی قوم کا آخری فرد اور خاتم النبیین کے بھی یہی بھی ہیں۔ (یعنی آخری نبی)}
دوسرے لغات میں بھی یہی معنی مذکور ہیں۔ اس کے علاوہ قراء سبعہ میں سے متعدد کی قرأت خاتم بکسر التاء بصیغہ اسم فاعل ہے۔ جس کے معنی عربی کا ایک متبدی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ختم کرنے والے یا آخری کے ہیں۔ دوسری آیتوں نیز احادیث واقوال مفسرین بلکہ اجماع امت سے بھی یہی معنی متعین ہوئے ہیں۔ جس کی تفصیل ہم غیرضروری سمجھ کر بخوف طوالت نظر انداز کرتے ہیں۔
آیت کی یہ تاویل کہ خاتم بمعنی مصدق ہے۔ ایک غلط اور لغو تاویل ہے جو درحقیت لغوی تحریف کے مرادف ہے۔
اوّلاً… اس لئے کہ یہ لغت کے خلاف ہے۔ کسی لفظ کے حقیقی معنی چھوڑ کر کوئی دوسرے معنی بغیر کسی قوی قرینہ کے مراد لینا عقل ولغت وقواعد زبان کے لحاظ سے باالکل غلط ہے۔ خاتم کے حقیق معنی وہی ہیں جو ہم ذکر کر چکے ہیں۔ اس کو مصدق کے معنی میں لینا مجاز ہوگا۔ جس کے لئے قرینہ صارفہ کی احتیاج ہے اور یہاں اس قسم کا کوئی بھی قرینہ موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے حقیق معنی کو کیوں ترک کیا جائے؟ اور دوسرے معنی کیوں مراد لئے جائیں؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہوسکتا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ خاتم اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے اور اسے مصدق کے معنی میں لینا غلط ہے۔
ثانیاً… اس لئے کہ خاتم کو مصدق کے معنی میں لینے سے آیت کے اس جز کو اس کے دوسرے اجزاء سے مناسبت نہیں باقی رہتی۔