یہ عہد صاف صاف بتارہا ہے کہ ہر نبی نے اپنے مابعد آنے والے کی بھی نصرت کی ہے۔ جس طرح اپنے معاصر یا اپنے ماقبل انبیاء کی نصرت وتصدیق کی ہے اور یہ نصرت ان پر واجب اور ان کے کارمنصبی میں شامل تھی۔ ظاہر ہے کہ بعد میں آنے والے نبی کی نصرت ان پر واجب اور ان کے کارمنصبی میں شامل تھی۔ ظاہر ہے کہ بعد میں آنے والے نبی کی نصرت یہی ہے کہ اس کے متعلق پیشین گوئی کی جائے۔ اس کی علامتوں ونشانیوں کو اچھی طرح واضح کیا جائے اور اس کی تصدیق واتباع کی وصیت اپنی امت کو کر دی جائے۔ اس آیت کے بعد کسی تاریخی شہادت کا بیان بیکار ہے۔ تاہم واقعہ یہی ہے کہ تاریخ انبیاء بھی یہی بتارہی ہے کہ ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی پیشین گوئی اور ان کی تصدیق واتباع کی ہدایت ووصیت فرمائی۔ انبیاء کا یہ عام قاعدہ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سلسلۂ نبوت ہنوز جاری ہے تو خاتم النبیین محمد رسول اﷲﷺ نے انبیاء سابقین کے طریق اور حکم الٰہی کے خلاف اس قاعدے کی خلاف ورزی کیوں فرمائی؟ اور ایک بار بھی صراحت کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ کوئی دوسرا نبی بھی آئے گا۔
قرآن اور صاحب قرآن کا یہ سکوت دلیل واضح اور برہان لائح ہے۔ اس بات کی کہ محمد رسول اﷲﷺ پر باب نبوت بند ہو چکا اور اب آنحضورﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہیں ہوسکتا۔
اجرائے سلسلۂ نبوت کے متعلق سکوت ہی عقیدہ ختم نبوت کی صداقت کے لئے کافی تھا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس سکوت پر اکتفاء نہیں گیا۔ بلکہ قرآن مجید اور حدیث نبوی نے واضح طور پر عقیدہ ختم نبوت کو بیان کر کے خاتم النبیینﷺ کے بعد کسی نبی کے مبعوث ہونے کی کلیتہً نفی کر دی ہے۔
آیت ختم نبوت
اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہماری نظر مندرجہ ذیل آیت کریمہ پر جاتی ہے جو آیت ختم نبوت کے نام سے موسوم ہے۔
’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما (الاحزاب:۴۰)‘‘ {محمد(ﷺ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ بلکہ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخری نبی ورسول ہیں اور اﷲ ہر چیز کو جاننے والے ہیں۔}