ہمارے سپرد فرمائی ہے۔ اپنے ذہن سے پوچھئے کہ امت کی اس خصوصیت کی وجہ کیا ہے؟ کیا امم سابقہ مثلاً یہود ونصاریٰ کو اپنی کتابیں اور اپنے انبیاء عزیز نہ تھے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے اس کا چوتھائی اہتمام بھی ان کے تحفظ کے لئے نہ کیا؟ اس کا جواب بھی یقینا آپ کو عقیدہ ختم نبوت کے جلی عنوان کے تحت ملے گا۔ دوسری امتوں نے یہ اہتمام اس لئے نہیں کیا کہ انہیں دوسرے انبیاء کے آنے کی توقع تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ ہدایت گم ہو جائے گی تو دوسری ہدایت آجائے گی۔ یہ نبی نہ رہیںگے تو دوسرے نبی آجائیں گے اور وہی کتاب کی حفاظت بھی کریںگے۔ اگر یہ کتاب گم ہو جائے گی تو دوسری کتاب آجائے گی۔ یا دوسرے نبی اس کتاب کی بازیافت کریں گے اس اطمینان کی وجہ سے انہوں نے اس سرمایہ کی حفاظت کا اہتمام نہیں کیا۔ بخلاف اس کے امت محمدیہﷺ کو یقین تھا کہ آخری کتاب آچکی۔ آخری نبی ظاہر ہو چکے۔ اگر ہم اس کتاب کو یا اس نبی کی سنت کو گم کر دیں گے تو کبھی ہدایت نہ پاسکیں گے۔ اس لئے انہوں نے ان دونوں کی حفاظت وبقاء کے لئے اپنی پوری قوت صرف کردی اور اتنا اہتمام کیا اور ان دونوں کی ایسی حفاظت کی جو آپ اپنی نظیر ہے۔ اگر ختم نبوت کا عقیدہ نہ ہوتا تو یہ امت بھی کتاب وسنت کی حفاظت کا ایسا اہتمام نہ کرتی اور امم سابقہ کی طرح ان رہبروں سے محروم ہوکر وادیٔ ہلاکت میں برباد ہوجاتی۔ بے شک اگر محمد رسول اﷲﷺ پر نبوت ختم نہ ہوجاتی تو یہ امت بھی ختم ہو جاتی۔
نبی کریمﷺ کے ساتھ وفاداری
مندرجہ بالا دلیل کا یہ نتیجہ صریح بھی قابل ذکر ہے کہ امت محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے نبی اور اپنی کتاب کے ساتھ وفاداری کا اظہار کیا اور اس کا وجود ختم نبوت کی ضرورت وحکمت کی برہان جلی ہے۔ اگر محمد رسول اﷲﷺ پر نبوت ختم نہ ہو جاتی اور باب نبوت آنحضورﷺ کے بعد بالکل بند نہ ہو جاتا تو امت میں یہ جذبہ وفاء اس قدر طاقتور نہ ہوتا اور یہ امت بھی باقی نہ رہتی۔ رحمت کردگار کا تقاضا یہی ہوا کہ امت کو جو مختلف النسل، مختلف المزاج، مختلف الوطن اقوام وافراد کا مجموعہ ہے۔ اپنے نبی اور اپنی کتاب کے ساتھ وفاداری کا اس قدر قوی جذبہ عطاء کیا جائے جو اسے قیامت تک جادۂ استقامت پر قائم رکھے۔ حکمت الٰہیہ نے تجویز فرمایا کہ اسے خاتم النبیینﷺ کی امت بنا دیا جائے اور باب نبوت کو ان کے بعد بالکل مسدود ومقفل کر دیا جائے۔ تاکہ اس امت کی وفاداری کا جذبہ منقسم ہو کر کمزور نہ ہونے پائے اور طاقتور سے طاقتور طوفان اس کوہ استقامت کو جنبش نہ دے سکے۔ یہودیت اور نصرانیت بنواسرائیل کے ساتھ مخصوص تھیں اور ہر نبی کے ساتھ ان کی وابستگی کا محرک صرف دین نہیں بلکہ ہم نسلی کا رابطہ بھی تھا۔ مگر باوجود اس کے بکثرت انبیاء کی