لیکن امت محمدیہﷺ کی وفاداری میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا اور عقیدۂ امامت کو اس نے نہایت حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا۔ جھوٹے اور مفتری مدعیان نبوت سے بھی اسے بکثرت واسطہ پڑا۔ مگر اس نے ان کے ہفوات ولغویات کے اوپر کان بھی نہ دھرا۔ صرف اتنا ہی ہوا کہ امت کے وہ افراد جن کے دل نفاق کے زہر سے مسموم وماؤف ہوچکے تھے اور جو امت کے جسم کے فضلات یا خبیث مادے اور بدگوشت کی حیثیت رکھتے تھے۔ مفسدوں اور فتنہ انگیزوں کے دام فریب میں مبتلا ہوکر امت سے خارج ہوگئے۔ لیکن بحیثیت مجموعی امت کا جسم بدستور سلامت رہا اور نبی کریمﷺ کے ساتھ اس کی وفاداری میں ذرہ برابر فرق نہ آیا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ امت، نبی کریم، محمد رسول اﷲﷺ کو خاتم النبیین اور آخری نبی سمجھتی ہے۔ قرآن مجید کو خاتم الکتب اور اﷲتعالیٰ کا آخری ہدایت نامہ جانتی ہے۔ اس لئے اسے کبھی کسی نئے ہادی یا ہدایت کا انتظار نہیں رہا اور اگر کسی نئے داعی نے اسے اپنی طرف بلانا چاہا تو اسے اس کی صداقت کا ادنیٰ احتمال بھی نہ پیدا ہوا۔ بلکہ اس نے اس کی آواز سنتے ہی اسے کذاب اور مفتری سمجھ لیا اور اس کی گمراہ کن باتوں سے ذرہ برابر بھی متاثر نہ ہوئی۔ بلکہ کتاب وسنت کے ساتھ اس کی وابستگی اور زیادہ قوی ہوگئی۔
امم سابقہ میں چونکہ ختم نبوت کا عقیدہ نہیں تھا اور نہ ہوسکتا تھا۔ اس لئے اپنے نبی اور اپنی کتاب کے ساتھ ان کی وابستگی اور وفاداری اس قدر مستحکم اور قوی نہ تھی، نہ ہوسکتی تھی۔ انہوں نے جس طرح ہادیوں کی اتباع کی۔ اسی طرح رہزنوں کی آواز پر بھی لبیک کہا۔ یہاں تک کہ اپنی کتابیں بھی گم کر دیں اور اپنے انبیاء کے سنت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اس طرح اجتماعی خود کشی کر کے صفحۂ ہستی سے محو ہو گئیں۔
امت محمدیہ کی خاتم الکتب اور خاتم النبیین سے وفاداری اور امم سابقہ کی بے وفائی دونوں باتیں اجتماعی نفسیات کے صحیح اور یقینی اصول پر مبنی ہیں اور ان کا راز ختم نبوت کے عقیدے میں پنہاں ہے۔ یہ نتیجہ بالکل واضح ہے کہ اس امت کی بقاء اس کے عقیدۂ ختم نبوت سے وابستہ ہے۔ اگر یہ عقیدہ نہ ہوتا تو یہ امت بھی باقی نہ رہتی۔
بقائے امت کے ساتھ اس عظیم الشان اور اہم عقیدے کے گہرے اور قوی تعلق پر ایک دوسرے پہلو سے بھی نظر کیجئے۔ ایک جانی اور مانی ہوئی حقیقت ہے کہ اپنی کتاب اور اپنے نبیﷺ کی سنت کی حفاظت اور بقاء کے لئے جیسی کوشش اور جیسا اہتمام امت محمدیہ (علیہ الف الف تحیہ) نے کیا ہے۔ اس کی نظیر بلکہ اس کی چوتھائی کی نظیر بھی کسی امت اور کسی قوم میں نہیں مل سکتی۔ جس کا اثر یہ ہے کہ کتاب وسنت اس طرح محفوظ ہیں کہ گویا آج ہی محمد رسول اﷲﷺ نے یہ امانت