بلاخیز طوفان نے اسے آزمایا اور شرمندگی کے ساتھ اعتراف شکست کیا۔ بجلیوں نے اسے تاکا مگر جزاضطراب کچھ ہاتھ نہ آیا۔ کیا یہ قرآن وصاحب قرآن کا ایک معجزہ نہیں؟ یہ اعجاز اس وقت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکتا ہے۔ جب ہم سابق امتوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں جو اس قسم کی آزمائشوں کے مقابلہ میں شکست کھا کر صرف راہ ہدایت ہی نہیں بلکہ اپنے رہنماؤں کو بھی چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر گئیں اور بحیثیت امت اپنے وجود ہی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ بطور مثال یہود ونصاریٰ کو لیجئے۔ جن کا وجود بنی اسرائیل تک محدود تھا۔ اس لئے ان کے لئے آزمائش کے وقت اپنی ملی وجود کو برقرار رکھنا اور دین حق پر قائم رہنا، بہ نسبت امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کے طبعاً آسان تھا۔ مگر ہوا کیا؟ وہ دین حق پر اندرونی وبیرونی حملوں کی تاب نہ لاسکیں اور اس کی آزمائش میں پوری نہ اتر سکیں۔ بلکہ وہ خاتم النبیینﷺ کی بعثت سے کئی صدیاں پہلے ہی اپنے دین کو بالکل گم کرکے اور اپنی کتاب وسنت انبیاء سے ہاتھ دھوکر بحیثیت امت اپنا وجود ختم کر چکی تھیں۔ آج صرف یہودیت اور نصرانیت کا نام موجود ہے۔ مگر صحیح معنی میں امت تو کیاساری دنیا میں کوئی فرد ایسا نہیں نکل سکتا جسے صحیح معنی میں یہودی یا نصرانی کہا جاسکے۔
قرآن مجید اور سنت محمدیہﷺ کا اعجاز دیکھو کہ یہ امت جس کے آغوش عاطفت میں پوری دنیا کی قومیں پرورش پارہی ہیں اور رنگ، نسل، مزاج کے اختلافات اس پرورش میں ذرہ برابر بھی مانع نہیں ہوتے۔ سینکڑوں آزمائشوں اور ہزاروں اندرونی وبیرونی فتنوں سے مقابلہ کرتی ہوئی اپنے رہبروں (کتاب وسنت) کے پیچھے اطمینان کے ساتھ راہ ہدایت پر گامزن ہے اور اپنے وجود میں کمی کے بجائے برابر اضافہ کر رہی ہے۔
اس امت کی اس بے نظیر اور معجزانہ استقامت کا اور اس کی بقاء کا راز کیا ہے؟ جو شخص تاریخ امت اور اجتماعی نفسیات سے ذرا بھی واقف ہے اور غور وفکر کی صلاحیت رکھتا ہے وہ یقینا اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کا راز عقیدہ ختم نبوت ہے۔ فلسفیوں کی مغالطہ انگیزیاں یہود ونصاریٰ کی ریشہ دوانیاں اور فریب کاریاں، فاسقانہ تمدنوں کی سحر طرازیاں سب نے اسے دعوت ضلال دی۔ مگر اس نے کسی طرف التفات نہ کیا۔
یہ خارجی حملے تھے۔ داخلی دشمنوں کی وسیسہ کاریاں اس سے بڑھ کر تھیں۔ منافقوں کے ایک گروہ نے خاتم النبیینﷺ کی عظمت کو گھٹانے اور آنحضورﷺ کے ساتھ امت کی وفاداری کو متزلزل کرنے کے لئے عقیدۂ امامت اختراع کیا اور ایک دو نہیں پورے بارہ اشخاص کو خاتم النبیین کے مقابلہ میں لاکر ختم نبوت کے عقیدہ پر پشت کی جانب سے وار کرنے کی کوشش کی۔