نوع انسانی کا طبعی رجحان اجتماع ختم نبوت کے ساتھ خاص مناسبت رکھتا ہے۔ یہی حکمت ہے کہ ختم المرسلین کی بعثت ایسے وقت میں ہوئی۔ جب یہ رجحان قوی سے قوی تر ہوچکا تھا اور روز افزوں ترقی کر رہا تھا۔
اس اجتماع واختلاط کا ایک ضروری ولابدی نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کی مختلف قومیں ایک دوسرے پر اپنے اخلاق وعادات اور اپنی تہذیب وثقافت کا اثر ڈالیں اور اس تاثیر وتأثر سے نوع انسانی کا ایک خاص مزاج تیار ہو جو دنیا گیر اور سب اقوام وممالک کا مشترکہ سرمایہ ہو۔ یہ مزاج صحیح بھی ہوسکتا ہے اور فاسد بھی اس کی اصلاح کے لئے ایسے ہی نبی کی اتباع مفید ہوسکتی ہے۔ جو خاتم النبیین ہونے کی وجہ سے اس بین الاقوامی مزاج سے مناسبت رکھتا ہو اور جس کی جامعیت سب اقوام وممالک کو ایک مرکز پر مجتمع کرنے میں معاون ثابت ہو۔
اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو ہر نبی اس مزاج پر اثر انداز ہوتا اور اس کی وحدت ختم ہو جاتی۔ عقیدہ ختم نبوت اس اجتماعیت کے ساتھ خصوصی مناسبت رکھتا ہے اور اس کے وجود وبقا کے لئے ایک ناگزیر شئے ہے۔
توضیح مزید یہ ہے کہ اگر آنحضورﷺ کے بعد العیاذ باﷲ کوئی دوسرا نبی مبعوث ہوتا تو اس وقت کے بعض لوگ اس پر ایمان لاتے اور بعض نہ لاتے۔ منکرین بھی کتاب وسنت پر عملدرآمد کرتے اور مذکورہ اجتماعی مزاج پر اثر انداز ہوکر اسے اپنی طرف کھینچتے۔ مقررین بھی یہی کرتے۔ دونوں کتاب وسنت کا سہارا لیتے۔ اس کشمکش کی وجہ سے بین الاقوامی اجتماعی اتحاد پارہ پارہ ہو جاتا۔
ختم نبوت یا ختم امت
امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ رنگ، نسل، وطن کے قیود سے آزاد ہے۔ عرب، عجم، ایران، توران، ایشیائ، یورپ، امریکہ، دنیا کے ہر خطہ اور ہر ملک ہررنگ اور ہر نسل کا اس سے تعلق ہے۔ یہ اس امت کی ایسی خصوصیت خاصہ ہے جو اس سے پہلے کسی امت کو نصیب نہیں ہوئی۔ مختلف المزاج اقوام کے اس قافلہ نے کتاب وسنت کو رہنما بناکر اپنے ۱۴سوبرس کے سفر میں اس قدر صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ جن کی نظیر امم سابقہ میں بحیثیت مجموعی نہیں مل سکتی۔ سنگلاخ وپر پیچ وادیوں کو طے کرنے کے علاوہ جیسے جیسے رہزنوں سے اسے واسطہ پڑا ہے اور جتنے ڈاکے اس پر ڈالے گئے ہیں اور باوجود اس کے جس طرح اس نے اپنی متاع عزیز کی حفاظت کی اور اپنے وجود کو باقی رکھا۔ وہ اپنی جگہ پر نہ صرف یہ کہ دنیا کی تاریخ میں بے نظیر واقعہ ہے۔ بلکہ ایک حیرت انگیز اور تحیر خیز معجزہ بھی ہے۔ ہلاکت خیز سیلابوں نے اس سے سر ٹکرایا اور اپنا سر پھوڑ کر پسپا ہوگئے۔