تاریخ کے پردہ سیمیں پر ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ پہلے سلسلہ میں خود نبی کے زمانہ میں کبھی چند افراد اور کبھی ایک جماعت یا قوم میں تقلید محض کے بجائے اتباع دلیل کا ذوق ورجحان پیدا ہوا اور انہوں نے امور معاد کو دلیل نقلی یعنی نبی وکتاب کے ذریعہ اور معاش کو دلیل عقلی سے حاصل کرنے کو منہاج فکر قرار دیا۔ مگر نبی کا سایہ سر سے اٹھنے کے بہت تھوڑے عرصہ کے بعد یہ مذاق فاسد ہو گیا۔ معاد ومعاش دونوں کے مسائل کا ماخذ رسم ورواج کو بنا لیا گیا۔ تقلید آباء واکابران کا منہاج فکر بن گیا اور انبیاء وکتب الٰہیہ سے منہ پھیر کر قائدین اور پیشرووں نیز عام قومی روایات کو علم ودانش کا سرچشمہ تسلیم کر لیا گیا۔ دین کی کشتی رسوم کے سیلاب میں بہہ گئی۔ دلیل ذلیل ہوئی اور غیر مستند سند کا دور دورہ شروع ہوگیا۔
مسیحیت نے اس جنون میں مبتلاء ہوکر معلوم نہیں کتنے صاحبان کمال کے خون میں اپنے ہاتھ رنگے۔ یہودیت کی آستین بھی اس لہو سے رنگین ہے۔ یہ نمونے ہمارے بیان کے بہت قابل اعتماد شاہد ہیں۔ تاریخ یورپ کا طالب علم ان مفکرین پر کلیسا کی چیرہ دستیوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ جو اسلامی طریق سے متاثر ہوکر اپنی عقل کو دشمن عقل کلیسا کی قید سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ یہ وہ جرم عظیم تھا جسے کلیسا ناقابل عفو سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک سارے فسق وفجور قابل معافی تھے۔ یہاں تک کہ بے گناہوں کا قتل بھی معمولی جرم تھا۔ مگر زمین کو گول کہہ دینا یا کہکشاں کو ستاروں کا مجموعہ کہنا، ایک شیطانی تصور اور مسیحیت سے کفر وارتداد صریح تھا۔ جس کی معافی کی کوئی صورت نہ تھی۔ مسئلہ خواہ ہیئت کا ہو یا ہندسہ کا۔ طبعیات کا یا کیمیاء کا اس کے علم کا سرچشمہ کلیسا تھا۔
دوسرا سلسلہ ان لوگوں کا تھا جو اپنے علوم وافکار میں وحی ربانی اور تعلیمات انبیاء کی ہدایت سے محروم تھے۔ ان کا حال بھی وہی تھا یعنی تاریخ صرف معدودے چند افراد کو یہ سند عطاء کرتی ہے کہ انہوں نے دلیل وحجت کو دلیل راہ بنایا۔ بقیہ سب افراد بلکہ اقوام کی مسند علم کا تکیہ سند ہی پر تھا۔ فرق یہ ہے کہ مسیحی یا یہودی اپنے احبار ورہبان کے اقوال واعمال کو معیار حق اور علم کا منبع سمجھتے تھے اور یہ لوگ سقراط، زینو، فلاطون، ارسطو، سولن وغیرہ فلسفیوں، مقننوں، لیڈروں، ہیروؤں کے اقوال کو علم ودانش گردانتے تھے اور ان کی مخالفت کو جرم عظیم سمجھتے تھے۔
یہ واقعات ہیں۔ انہیں بنظر غائر دیکھ کر آپ ان کے اسباب وعلل تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہمیں یہاں جملہ علل واسباب کا استقصاء نہیں کرنا ہے۔ صرف ایک سبب پر ہم روشنی ڈالنا چاہتے ہیں جس کا تعلق ہمارے موضوع سے ہے۔
یہ صحیح ہے کہ اتباع انبیاء کے مدعیوں میں یہ غلط رجحان تعلیم انبیاء سے انحراف کا نتیجہ تھا۔