سرچشمہ ہے؟ یہ سوال وہ سنگ میل ہے جس نے نوع انسانی کو ارتقاء فکری وذہنی کا راستہ دکھایا۔ یہ سوال مدت دراز تک یورپ کی مذہبی، عمرانی، معاشی اور سیاسی کشمکش کی بنیاد بنا رہا۔ بالآخر دلیل کی فتح ہوئی اور سند زینت طاق نسیاں بنادی گئی۔ اسی یوم فتح کو یورپ کے ارتقاء کی فکری صبح صادق کہنا چاہئے۔
یورپ، علوم انبیاء اور ان کی نقل صحیح سے تہی دست تھا۔ کتاب الٰہی بھی اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ مگر باوجود اس تہی دستی ومحرومی کے مدت دراز سے اپنی مصنوعی، تقدس کی قوت سے کلیسا عوام کے ذہن کو غلط اور خلاف حقیقت اسناد کی زنجیروں میں اسیر کئے ہوئے تھا۔ اس بے جا پابندی کا ردعمل بہت شدید ہوا۔ یورپ، معاد ومعاش کے درمیان اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ عقلیت کا طوفان عقل معاد کو بہا لے گیا۔ اس کی عقل معاش نے خوب ترقی کی۔ مگر عقل معاش اس جگہ سے ایک انچ آگے نہیں بڑھی۔ جہاں زمانۂ جاہلیت کے ایک بدوی عرب کی عقل وفہم تھی۔ اسلام نے یورپ کو دلیل کا راستہ دکھایا۔ مگر شاگرد نے استاد کی پوری بات نہ مانی۔ جتنی مانی اس سے آج تک فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جس سے روگردانی کی اس سے محرومی کا خسارہ سب سے بڑا خسارہ ہے۔ مگر احسان مند ہونے کے بجائے شاگرد استاد کا جانی دشمن ہوگیا اور اس کی مخالفت میں حق کا بھی مخالف ہوگیا۔
خیر اس جملہ معترضہ کو اسی جگہ چھوڑئیے۔ اصل مقصود کی راہ پر قدم بڑھائیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دلیل کو دلیل راہ بنانے کا رجحان دنیا میں اس قدر تاخیر کے ساتھ کیوں پیدا ہوا؟ یہ ضحیح ہے کہ تقلید کے بجائے استدلال واستنتاج اور غور وفکر کی دعوت سب سے پہلے قرآن حکیم اور محمد رسول اﷲﷺ کی طرف سے پیش کی گئی۔ لیکن یہ تعلیم سب انبیاء مرسلین اور سب کتب الٰہیہ نے دی ہے۔ ہر نبی اور ہر کتاب نے اپنے زمانہ کی قوت فکریہ کو بیدار کرنے کے لئے جھنجوڑا ہے اور فکر واستدلال کا راستہ دکھایا ہے۔ اس لئے یہ سوال بدستور باقی رہتا ہے کہ باوجود انبیاء وکتب الٰہیہ کی مسلسل تعلیم یہ مذاق ورجحان چند افراد یا مخصوص اقوام میں تو پیدا ہوا وہ بھی عارضی طور پر مگر عام دنیا کا رجحان بدستور دلیل وفکر کے بجائے سند پر اعتماد کرنے کی جانب رہا۔
خاتم المرسلین سے پہلے دنیا میں بہت سے انبیاء بھی تشریف لائے اور حق تعالیٰ نے ان کے توسط سے اپنی کتابیں بھی بھیجیں۔ ان کے علاوہ فلسفی، منطقی، ریاضی داں، مقنن، مفکر بھی بکثرت ہوئے۔ گویا علم کے دو سلسلہ متوازی طور پر جاری رہے۔