عقیدہ ہی تھا۔ جس نے انہیں اجتہاد واستنباط پر آمادہ کیا اور عقل معاد کی قوتوں سے کام لے کر انہوں نے دین کی بنیادوں پر ان مشکل اور اجنبی مسائل کو بہت آسانی کے ساتھ حل کر لیا۔ اس کے بعد بھی امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کو ایسے مسائل سے سابقہ پڑا۔ لیکن ہمیشہ اس کے علماء اور صلحاء نے ان مسائل کو کتاب وسنت کی روشنی میں حل کر لیا۔ اگر نبوت ختم نہ ہوگئی ہوتی تو امت کی عقل معاد ہر گز آزادی کے ساتھ عمل نہ کر سکتی تھی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ معطل اور جامد ہوجاتی۔ جس کے بعد اس میں انحطاط وزوال شروع ہوجاتا۔ بلکہ ممکن تھا کہ ایک طویل مدت جمود کے بعد یہ انحطاط پوری امت کو ارتداد تک پہنچا دیتا۔
امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کے سیاسی زوال کی تاریخ بہت دردناک ہے۔ مگر اس کا یہ پہلو بہت روشن ہے کہ اس نے بے کسی کے عالم میں بھی دین کو محفوظ رکھا۔ فتنۂ تاتار اسپین میں خلافت بنوامیہ کے زوال کے بعد مسلمانوں کی مظلومانہ حالت، افریقہ، ہندوستان وغیرہ میں ان کا انحطاط یہ سب اپنی جگہ ہر مسلمان کے لئے بہت ہی دردناک اور رنجدہ واقعات ہیں۔ لیکن ان نازک حالات میں بھی مسلمان نے شریعت اسلامیہ کو کبھی خاموش نہیں پایا اور کبھی اس کی طرف سے مایوس نہیں ہوا۔ بلکہ ان سخت حالات کے احکام بھی اس کی لسان مقدس سے سنے اور ان پر عمل کر کے فائدہ اٹھایا۔ یہ صرف ختم نبوت کا کرشمہ تھا۔ اگر یہ عقیدہ نہ ہوتا اور ختم نبوت ایک حقیقت نہ ہوتی تو اس موقع پر امت اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھتی۔ نئے نبی کے انتظار میں شریعت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ سے سوال ہی نہ کرتی یا سوال کرتی تو اسے ساکت وصامت اور کسی نئے نبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاتی۔
کیا منکرین ختم نبوت، امت کو اس عظیم الشان قوت محرکہ سے محروم کردینا چاہتے ہیں۔ جس کی زبردست تحریک اس چیز کی ضمانت ہے کہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی کبھی اس کے دینی وشرعی ذہن میں جمود وتعطل نمودار نہیں ہوسکتا۔ جو یاس وناامیدی کی تہ بتہ تاریکیوں میں بھی اس کی شمع امید کو روشن اور اس کے معادی ذہن ودماغ کو فکر واجتہاد کی روشنی سے منور رکھتی ہے اور جو علوم دینیہ میں اس کی بے نظیر وبے مثال ذہانت وطباعی کی روح رواں اور حل مشکلات کی بے پناہ قوت کا سرچشمہ ہے۔
نوع انسانی کا فکری ارتقاء
سند (Authority) یا دلیل (Reason) ان دونوں میں سے کون علم انسان کا