خاتم النبیین نے جس امت کی تاسیس وتعمیر فرمائی۔ اسے اپنے رسول اﷲﷺ کی موجودگی میں اس ماحول سے باہر دیکھنے کی نوبت نہیں آئی جو نبی کریمﷺ کا بنایا ہوا تھا۔ لیکن آپ کی وفات کے بعد فوراً ہی اسے ان ممالک واقوام سے سابقہ پڑا جن کا ایک مخصوص تمدن تھا اور جن کے ممتاز نظریات واصول حیات تھے۔ معتقدات ونظریات سے لے کر معاشرت ومعاملات تک گویا سر سے پیر تک زندگی کے یہ نظامات امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کے لئے بالکل نئے اور اجنبی تھے۔ نبی امی، فداہ ابی وامی نے انہی جو ثقافت سکھائی تھی جس نظام اخلاق ومعاملات کی تعلیم اور جس معاشرت وطرز حیات کی تربیت دی تھی۔ اس کی بنیاد ایمان ویقین اور تصور آخرت پر قائم تھی۔ ان کا پورا نظام حیات معاشی کے بجائے معادی تھا اور ان کے افکار واعمال کا سرچشمہ عقل معاد تھی نہ کہ عقل معاش یہ وہ نظام زندگی اور طرز حیات تھا جو ساری دنیا میں صرف انہیں کے ساتھ مخصوص تھا۔
جن قوموں سے انہیں واسطہ پڑا تھا۔ مثلاً رومی وایرانی، ان کا پورا نظام حیات دنیا کے محور پر گردش کر رہا تھا۔ ان کی ثقافت وتہذیب، ان کا تمدن وطرز حیات ان کے معاملات واخلاق، ان کی معاشرت وسیاست، خلاصہ یہ کہ زندگی کا ہر پہلو تصور آخرت کے اثر سے محروم اور جب دنیا کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ ایران کے مذاہب تو سراسر فلسفے تھے۔ جنہوں نے مرور زمانہ اور دیگر اسباب کی وجہ سے دین ومذہب کی شکل اختیار کر لی تھی۔ روم مسیحیت کا حلقہ بگوش تھا۔ مگر کون مسیحیت؟ جس سے مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام بالکل بری ہیں جو وہاں پہنچ کر مسیحیت کے بجائے شرک آمیز فلسفہ مسیحیت بن چکی تھی۔ بے شک اس میں آخرت کا تصور موجود تھا۔ مگر بہت ہی مبہم بالکل غیر واضح اور بیحد دھندلا، اسی کے ساتھ رومہ کی عملی زندگی سے اسے دور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ ان کے افکار خالص عقل معاش کے رہین منت تھے اور عقل معاد کسمپرسی کے عالم میں تھی۔ خاتم المرسلین کے اوّلین شاگردوں کو اس نظام حیات سے واسطہ پڑا جو ان کے نظامات حیات سے نسبت تضاد رکھتے تھے اور ان کے لئے بالکل اجنبی تھے۔ واسطہ قوموں ہی سے نہ تھا۔ بلکہ انہیں بالکل جدید اور اجنبی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کا حل کرنا بحیثیت ہادی اور بحیثیت حکمران ان کے اوپر واجب تھا۔ اگر نبوت ختم نہ ہوجاتی تو اس موقعہ پر مسلمان آگے بڑھنے کے بجائے ٹھٹک کر کھڑے ہو جاتے اور عقل معاد سے کام لینے کے بجائے کسی نئے نبی کے آنے کا انتظار کرتے۔ یہ ختم نبوت کا