زیادہ سے زیادہ شکر بھی کم سے کم ہے اور اس کے شکر واجب کا کروڑوں حصہ ادا کرنا بھی طاقت انسانی سے باہر اور غیرممکن ہے۔
منکرین ختم نبوت، احسان فراموش، ناقدر شناس اور کافران نعمت ہیں جو اس احسان عظیم کی قدر کرنے کے بجائے سلسلۂ نبوت جاری رکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ گویا اس شدید امتحان وابتلاء کے طالب ہیں۔ جس سے رب رحیم نے انہیں مستثنیٰ ومحفوظ فرمادیا ہے اور جس میں ناکامی کے معنی عذاب دائمی میں مبتلا ہونے کے ہوئے ؎
بریں عقل و دانش بیاید گریست
عقل معاد کا ارتقاء
ایک ڈاکٹر کسی میڈیکل کالج کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرتا ہے۔ مگر اسے کوئی موقع اس قسم کا نہیں ملتا کہ وہ آزادی کے ساتھ مطب کر سکے۔ ایسے ڈاکٹر کی مہارت فن کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ میرے خیال میں اس مسئلہ میں دورائیں نہیں ہوسکتیں کہ ایسا ڈاکٹر علمی اعتبار سے خواہ کتنا ہی ممتاز کیوں نہ ہو۔ عملی اعتبار سے کوئی ترقی نہیں کر سکتا۔ جب وہ مریض کا علاج اپنے اساتذہ کی امداد مشاورت سے بے نیاز ہوکر شروع کرے گا تو اسے اپنی مہارت کے بجائے اپنی مبتدی ہونے کا احساس ہوگا۔ ایک ایسا ڈاکٹر جو اس سے جونیئر اور بلحاظ معلومات اس سے کمتر ہو۔ مگر تجربہ اس سے زائد رکھتا ہو اس سے بہتر اور زیادہ سہولت کے ساتھ کامیاب علاج کر سکے گا۔ ڈاکٹری ہی کے ساتھ، مخصوص نہیں بلکہ انجینئر، وکیل، میکانک اور جن اشخاص کا مضمون کوئی ایسا علم ہو جو عملی پہلو بھی رکھتا ہو ان کا یہی حال ہوتا ہے۔ اس قسم کے اشخاص جب تک اپنے علم کو عملی مسائل پر آزادی کے ساتھ منطبق نہ کریں۔ اس وقت تک وہ اس علم میں ترقی کر کے درجہ کمال کو نہیں پہنچ سکتے۔ اس قسم کے حصول کمال میں ذہن کی آزادی یا بالفاظ دیگر اصول کی آزادانہ تطبیق اور ان کی بنا پر تفریع کو بہت بڑا دخل ہے۔ اس لئے کہ انسان مشین نہیں۔ بلکہ ایک صاحب فکر ہستی ہے۔
اس اصول کی روشنی میں ختم نبوت انسان کی ذہنی وفکری زندگی کے لئے آب حیات نظر آتی ہے۔ اگر محمد رسول اﷲﷺ اﷲتعالیٰ کے آخری نبی نہ ہوتے اور شریعت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ اﷲ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی آخری شریعت نہ ہوتی تو انسان کی عقل معاد جامد ہوکر رہ جاتی اور اپنے ارتقائی درجات کے دو چار زینوں سے زیادہ کبھی نہ طے کر سکتی۔