نہیں! اس کی سزا کا مقام آخرت ہے اور علیم وحلیم رب العالمین صدیوں تک اس جرم کی دنیاوی سزا نہیں دیتے۔ آج دنیا میں اس جرم کی کتنی کثرت ہے۔ مگر مجرم قومیں تباہی وبربادی اور مکمل استیصال سے محفوظ ہیں۔ پھر کیا فسق وفجور؟ یہ بھی نہیں! کیا آج فاسق وفاجر قومیں دنیاوی عیش وعشرت سے بہرہ یاب نہیں؟ اور کیا صدیوں سے ارتکاب جرائم کرنے کے بعد بھی ابھی تک مٹنے سے محفوظ نہیں؟ جس شخص کو حق تعالیٰ نے اپنی کتاب کا ذرا بھی ذوق عطا فرمایا ہے وہ بہت آسانی سے معلوم کر سکتا ہے کہ جن امم سابقہ پر ہلاکت وبربادی نازل ہوئی وہ وہی تھیں جنہوں نے انبیاء ومرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کو دیکھا۔ مگر ان کی دعوت کو ٹھکرایا ان کی بات کو جھٹلایا ان کی شان میں بے ادبیاں کیں اور ان کے دل کو توڑا۔
یہ واقعہ قرآن مجید کے عبرت خیز وحکمت آمیز قصص میں روح مشترک کا درجہ رکھتا ہے اور اس چیز کو روشن کر رہا ہے کہ بے شک انبیاء علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کا تشریف لانا انسانیت کے لئے ہزاروں رحمتوں اور برکتوں کا سبب ہے۔ لیکن دوسری طرف سخت امتحان، شدید آزمائش اور ابتلاء عظیم بھی ہے۔
باران رحمت، مردہ زمین کی حیات اور روح شجر ونبات ہے۔ مگر اسی کے ساتھ کمزور پودوں کے لئے باعث ممات بھی،نجوم ہدایت کا طلوع تنویر بصر وبصیرت کا سبب، مگر شپرہ چشموں کی خیرگی اور بیمار دلوں کی موت کا بھی باعث ہے۔ نبی کا دیدار ایمان والوں کے لئے قرب الٰہی کا اقرب ترین راستہ، مگر منکروں کے لئے حجت الٰہی کا تمام ہونا عذاب الیم کا پیام۔
اگر محمد رسول اﷲﷺ پر نبوت ورسالت ختم نہ ہوگئی ہوتی اور سلسلۂ نبوت جاری رہتا جیسا کہ امم سابقہ میں رہا تو امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ ہر نبی کی بعثت کے وقت سخت امتحان وابتلاء کے دور سے گذرتی۔ باربار اس کے سامنے ایمان وکفر کا سوال پیدا ہوتا۔ کسی نبی سے انکار کے معنی سب انبیاء کے انکار کے ہیں۔ اس لئے بہت سے ایسے ہوتے جو ایک لمحہ میں عمر بھر کی دینی کمائی کھو بیٹھتے اور عبادات اور ریاضت کے باوجود عذاب دائمی کے مستحق ٹھہرتے۔
حق تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کی امت کو اس ابتلاء عظیم اور پرخطر امتحانوں سے محفوظ رکھا اور سید المرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کو خاتم النبیین کا مرتبہ عطا فرما کر سلسلۂ نبوت کو آنحضورﷺ کے بعد بند فرمادیا حق تعالیٰ کا یہ احسان عظیم اسی امت پر ہے جس کا