وقت شروع ہوتا ہے جب حافظہ اپنے نقطۂ کمال پر پہنچ چکتا ہے۔ اس قانون کے ماتحت انسان کا نوعی ذہن بھی اس کا محتاج تھا کہ پہلے اس کی عقل معاد اپنے عروج وکمال کو پہنچ جائے تاکہ اس کے بعد اس کی دوسری قوت یعنی عقل معاش کو ترقی کا موقع ملے۔
خاتم النبیینﷺ کی بعثت کے وقت انسان کے ذہن نوعی میں پوری صلاحیت اس چیز کی پیدا ہوچکی تھی کہ وہ اعلیٰ علوم معاد میں کمال حاصل کر سکے اور اس کی عقل معاد درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بالکل تیار ہوچکی تھی۔ معلم اعظم رسول اکرمﷺ نے آکر اپنی تعلیم سے اسے درجہ کمال عطاء فرمایا اور ایسے علوم حقہ ربانیہ سے بھردیا۔ جس کی طلب وصلاحیت اس میں پورے طور پر پیدا ہو چکی تھی۔ ایک نابالغ بچہ ازدواجی تعلقات کے متعلق مسائل کو بالکل نہیں سمجھ سکتا۔ بلوغ کے بعد ان کے سمجھنے کی صلاحیت کاملہ پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ اس موضوع کے متعلق طب یا حیاتیات یا نفسیات کے مسائل خودبخود سمجھنے لگتا ہے۔ بلکہ اس صلاحیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے یہ مسائل سمجھائے جائیں تو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اگر نہ سمجھائے جائیں تو ان سے ناواقف رہے گا۔
اس مثال سے مندرجہ بالا بیان عیاں ہے۔ نبی کریمﷺ کے دور اقدس میں عقل معاد شباب کو پہنچ چکی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں پوری پوری صلاحیت معادی مسائل کو سمجھنے کی پیدا ہوگئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ خاتم النبیین کے علوم ربانیہ کو خوب سمجھ سکتا تھا۔ اگر انسان کی صلاحیت کامل نہ ہوتی تو وہ علوم ختم نبوت کو سمجھ نہ سکتا اور اس کا حامل نہ بن سکتا اور اگر خاتم النبیین نہ تشریف لاتے تو عقل معاد کامل نہ ہو سکتی بلکہ علوم حقیقیہ سے محروم رہنا اس کے لئے لازم ہوتا اور حق یہ ہے کہ اگر انسانیت میں علوم ختم نبوت کی صلاحیت کاملہ موجود نہ ہوتی تو خاتم النبیین کی بعثت ہی نہ ہوتی اور عقل معاش کی ترقی کا دور بھی شروع نہ ہوتا۔ کیونکہ نوع انسانی اپنے نوع ذہن کی ایک قوت کی تکمیل میں مصروف رہتی اور اس کی تکمیل کے بغیر دوسرے قوت یعنی عقل معاش کی تکمیل نہ مصروف ہوسکتی۔
اس نظریہ کی مزید وضاحت کے لئے اس تاریخ اور واقعی حقیقت پر غور کیجئے کہ بعثت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ سے پہلے بلکہ آنحضورﷺ کے زمانہ تک دنیا کی صاحب فکر ذہین اور ترقی یافتہ قوموں میں سب سے زیادہ جس علم کا رواج اور چرچا ملتا ہے وہ الٰہیات اور اخلاقیات ہے۔