ختم نبوت اور عقل معاش کا ارتقاء
حضرت آدم علیہ السلام سے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ تک تاریخ عالم میں دینی ومذہبی ابواب تو بکثرت ہیں۔ یہاں تک کہ (جیسا کہ باب اوّل میں ثابت کیا جاچکا ہے) باطل ادیان ومذاہب کی عقلاً جتنی صورتیں نکل سکتی تھیں۔ وہ سب بعثت محمدیﷺ تک ختم ہوچکی تھیں اور عالم کو ایسے حق کا انتظار تھا جس کی روشنی ہر قسم کے باطل کی تاریکی دور کردے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ عقل معاد اپنے انتہائی عروج وکمال کی طالب اور انسانیت کو اس کے کمال کی سخت احتیاج تھی۔
لیکن عقل معاش نے اس وقت تک موجودہ دور کے لحاظ سے بہت کم مدارج ارتقاء طے کئے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ انسانیت دنیاوی فہم وفراست کے لحاظ سے بھی سن بلوغ کو پہنچ چکی تھی۔ لیکن یہ اس کے بلوغ کا بالکل ابتدائی دور تھا۔ دور شباب ابھی دور تھا، غور کیجئے کہ اٹھارویں صدی عیسوی سے بیسویں صدی تک عقل معاش نے جس قدر ترقی کی ہے۔ اس کا سواں حصہ بھی اس سے پیشتر نہ حاصل کر سکی۔ ان دوڈھائی صدیوں کے ارتقاء عقل معاش سے اس سے پہلے کی ترقی کو کوئی نسبت بھی ہے؟
نکتہ یہ ہے کہ علوم معاش کی رفتار ارتقاء اس وقت تک تیز نہیں ہوسکتی تھی۔ جب تک علوم معاد اپنے عروج وکمال کو نہ پہنچ جائیں۔ جس طرح ایک انسانی فرد کی سب طبعی قوتیں متوازی طور پر ایک ساتھ ترقی نہیں کرتیں۔ مثلاً پہلے انسان کا ذہنی نشوونما ایک خاص درجہ کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی قوت تولید نسل ترقی کرتی ہے۔ جسے عرف عام میں بلوغ کہتے ہیں۔ یہ بلوغ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک قوائے ذہنیہ عقلیہ ایک درجہ تک ترقی نہ کر جائیں۔ جس کے بعد وہ صرف معلومات وتجربات کی غذا سے ترقی کرتے ہیں۔ خود ان کا ذاتی نشوونما رک جاتا ہے۔ جب تک عقل اس درجہ تک پہنچ نہ جائے۔ اس وقت تک اس میں قوت تولید نسل نہیں پیدا کی جاتی۔ اسی لئے بلوغ کو کمال عقل کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور بلوغ عقل سے پہلے بلوغ عرفی شروع ہو جاتا تو ایسا شخص عموماً فہم کی خامی اور عقل وخرد کی کوتاہی میں مبتلا ہوتا اور یہ کمزوری عمر بھر رفع نہ ہوتی۔ اس قانون فطرت کا دوسرا مظہر خود قوائے عقلیہ ہی کی ترقی کا فطری منہاج ہے۔ بچپن میں معلومات کی ساری غذا قوت حافظہ کے حصے میں آتی ہے اور متخیلہ اپنی ترقی کے لئے شباب کا انتظار کرنے پر مجبور ہے۔ بلوغ کے بعد متخیلہ کا دور عروج شروع ہو جاتا ہے۔ مگر یہ اس