عالم کے آخری حصہ میں فرض کرنا پڑے گا ۔ جس کے معنی یہ ہیں کے بنی نوع انسان کی ایک بہت ہی قلیل تعداد اس نعمت عظمیٰ سے بہرہ یاب ہوسکے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ شئے نوع انسانی کی مصلحت کے بالکل خلاف اور ارحم الرحمین کی رحمت سے بعید ہے۔
بے شک عقل یہ بات بتانے سے بالکل قاصر ہے کہ فلاں وقت پر نبی کو مبعوث ہونا چاہئے۔ لیکن نبی کی بعثت کے بعد عقل اس حقیقت کا ادراک کر سکتی ہے کہ فلاں نبی کی بعثت مناسب ترین وقت پر ہوئی تھی اور اس وقت کے انتخاب میں فلاں مصلحت تھی۔ اس قاعدے کے تحت ہم کہہ سکتے ہیں کہ عقلی طور پر خاتم النبیین محمدﷺ کی بعثت ایسے وقت پر ہوئی جو ختم نبوت کے لئے موزوں ترین وقت تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب انسانیت عقلی اعتبار سے حالت بلوغ کو پہنچ چکی تھی۔ بنو اسرائیل کی دینی امامت ختم ہوچکی تھی۔ مگر انبیاء بنی اسرائیل علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات نے انسان کی عقل معاد (یعنی دینی امور اور آخرت کے متعلق مسائل کی فہم اور سمجھ) میں ایسی صلاحیت پیدا کر دی تھی کہ وہ دین کامل کو سمجھ سکے اور اس پر عمل پیرا ہوسکے اور عقل معاش (یعنی دنیاوی امور کی سمجھ بوجھ) بھی اس درجہ پر پہنچ چکے تھی۔ جس کے بعد اس کی رفتار ارتقاء میں برابر تیزی پیدا ہوتی گئی اور وہ جمود وقوف سے حرکت وتکمیل کی طرف مائل ہورہی تھی۔ اس وقت شدید ضرورت اس بات کی تھی کہ انسان کو دین کامل کی تعلیم دی جائے تاکہ عقل معاد، عقل معاش کی رہنمائی کرتی رہے اور اسے حدود متجاوز ہونے سے محفوظ رکھے۔ اگر اس وقت نبوت ختم نہ ہو جاتی تو عقل معاد کمال کو نہ پہنچتی اور تیز رفتار عقل معاش کا ساتھ نہ دے سکتی۔ جب عقل معاش کی ترقی کا کوئی نیا دروازہ کھلتا تو عقل معاد ٹھٹک کر کھڑی ہو جاتی اور اس کا ساتھ دینے کے لئے کسی نبی کا انتظار کرتی۔
نئے مسائل کے معادی پہلو بالکل تاریک رہتے۔ اس تاریکی میں عقل معاش، اس قدر دور نکل جاتی کہ عقل معاد اس کی رہنمائی کے بجائے اس کی اتباع پر مجبور ہو جاتی۔ یہ حالت انسانیت کے لئے کس قدر ہلاکت خیز ہوتی؟ اس کے بیان کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت ختم نبوت کی وجہ سے کمالات ختم نبوت اور اس کے فیضان کے ظہور کے لئے انسان کے عقلی شباب وپیروی کا پورا زمانہ ملتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ انسانی زندگی میں یہی دو زمانے بہت طویل ہوتے ہوتے اور خاتم الرسل کے فیضان کے لئے ایسے طویل ہی زمانہ کی حاجت ہے۔ ابھی تو شباب بھی ختم نہیں ہوا۔ اس وقت ختم نبوت کے بارے میں شک کرنا بالکل ہی بے معنی ہے۔