اسی طرح انبیاء ومرسلین ہی کی ذوات قدسیہ ہیں۔ جنہوں نے اپنے وجود سے پوری نسل انسانی کے سرپرتاج کرامت رکھا۔ وہ انسانیت کا جوہر اور نوع انسانی کا شرف ہیں۔ اس فیض رسانی اور تقسیم شرف وکرامت میں سب انبیاء شریک وسہیم ہیں۔ ہر نبی انسانیت کے سرتاج اور اس کی حیات حقیقی کا منبع ہے۔ لیکن کتاب الٰہی ناطق ہے۔ ’’تلک الرسل فضلنا بعضہم علیٰ بعض (البقرۃ:۳۵۳)‘‘ {ان رسولوں میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔}
اس لئے تسلیم کرنا پڑے گاکہ عظمت وفضیلت کے لحاظ سے ان کامل انسانوں اور عظیم شخصیتوں میں باہم فرق مراتب ہے اور اسی طرق کے تناسب سے ان کی فیض رسانی کے مدارج میں بھی فرق کرنا پڑے گا۔
مراتب ومدارج کا یہ فرق اشارہ کر رہا ہے کہ جس طرح نوع انسانی کے شرف کی تکمیل مرتبہ نبوت سے کی گئی۔ اسی طرح کمال نبوت کا اعلیٰ ترین مرتبہ ختم نبوت کو بنایا گیا۔ ہر نبی کامل تھے لیکن کمال نبوت کے سامنے بھی منازل ارتقاء تھے اور اسے ایک فرد اکمل تک پہنچنا تھا اور یہ فرد اکمل واعظم خاتم النبیین کے نام سے موسوم ہے۔
ہم ثابت کر چکے ہیں کہ ختم نبوت ایک ناگزیر اور لابدی شئے ہے۔ سلسلۂ نبوت ورسالت کو لا انتہاء نہیں فرض کیا جاسکتا۔ کسی نہ کسی کو تو خاتم النبیین تسلیم کرنا ہی پڑے۔ خواہ اس کی شخصیت جو بھی فرض کی جائے اور اس کے لئے عمر عالم کا جو بھی حصہ تجویز کیا جائے۔ یہ بھی لازم ہے کہ جسے خاتم النبیین کہا جائے اسے کمالات نبوت ورسالت کا اعلیٰ ترین فرد سمجھا جائے اور نوع انسانی کے لئے اس کے فیوض وبرکات کو بہترین اور اعلیٰ ترین فیوض وبرکات تصور کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس نبی اکمل کے ذریعہ سے نوع انسانی کو بحیثیت نوع جو کمالات روحانیہ حاصل ہوںگے۔ ان کی نظیر امم سابقہ میں مفقود ہوگی۔ پھر کیا یہ ضروری نہیں کہ ان بے نظیر کمالات سے نوع انسانی کے انتفاع استفادے کی مدت طویل ہوتاکہ کثیر سے کثیر افراد ان کمالات سے مستفید ہوکر روحانیت وانسانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل کر سکیں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق اس حد تک قرب الٰہی کے منازل ارتقاء طے کر سکیں۔ جس حد تک کوئی امتی پہنچ سکتا ہے۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ سلسلۂ نبوت قیامت تک جاری رہے گا تو خاتم النبیین کو عمر