افلاس دور ہوا، اور وہ اس سرمایہ معلومات کو تفکر واستدلال کے کاروبار میں لگا کر منافع حاصل کر کے ان اسباب نے بعض غلطیوں سے مل کر دینی زندگی میں بھی انسان کو اس مغالطہ میں مبتلا کر دیا کہ محسوسات ہی حقائق ہیں۔ عقل وخرد نے حواس کے سامنے سپر ڈالدی اور حواس جو دینوی زندگی کے رہنما تھے۔ دینی زندگی کے لئے رہزن بن گئے۔
دوسرا دور جذبات کے شباب کا ہے۔ عقل اجتماعی پوری طاقت نہیں حاصل کر سکتی تھی کہ جذبات اس سے بہت زیادہ طاقتور ہوگئے اور اس پر حکمرانی کرنے لگے۔ محبت، عداوت، عظمت، دہشت، مسرت وغیرہ جذبات عقل خالص پر غالب اور فہم اجتماعی کے رہنما بن گئے۔ یہ بھی طبعی بات تھی۔ جذبات کی قوت نمو، عقل وفہم کی قوت نمو سے طبعاً بہت زائد اور قوی تر ہے۔ پھر کیا تعجب ہے کہ جو اس دور میں بنی نوع انسان کی دینی گمراہی بھی سب سے زیادہ اسی بے پناہ قوت کی رہین منت ہو۔
تیسرا دور محض تخیل کی نظر سے بہت مبارک دکھائی دے گا۔ کیونکہ دور عقلیت کے معنی ہی یہ ہیں کہ نوع انسانی کی اجتماعی زندگی میں عقل وفہم کا سکہ رواں ہو۔ کاش ایسا ہوتا! مگر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک دینی زندگی کا تعلق ہے۔ اس دور کو اس کا بدترین دور کہا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل وخرد نے حواس وجذبات کے مقابلہ سے پریشان ہوکر ان پر غلبہ حاصل کرنے کا ارادہ ہی ترک کر دیا اور اس کے بجائے مصالحت کی راہ اختیار کی۔ شرائط صلح کچھ نامناسب طے پائے۔ جن کی پابندی نے عقل وفہم کو بڑی حد تک جذبات وحواس کا محکوم بنادیا اور اس کے بدلے میں صرف محسوسات ووجدانات کا خراج قبول کر لیا۔ یہ دور آج بھی موجود ہے اور دنیا کی زندگی کا آخری دور ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔ انسان کی سب فطری قوتیں اجتماع زندگی پر باری باری حکمرانی کر چکی ہیں۔ عقل کے بعد کوئی ایسی قوت باقی نہیں رہی جو اس کی جانشینی کی مستحق ہو۔
عقلیت کی خصوصیت اس کے نام سے ظاہر ہے۔ ہمیں صرف دینی زندگی سے بحث ہے۔ اس پر اس کے اثرات دو لفظوں میں ظاہر کر سکتے ہیں۔ یعنی ہدایت وضلال دونوں چیزیں عقل ہی کی راہ سے نفس انسان تک پہنچتی ہیں۔
تاریخ کی یہ سہ گانہ تقسیم تاریخ یونان میں خوب نمایاں ہے۔ اس کے زمانہ ماقبل تاریخ میں جن بتوں کی پرستش ہوتی تھی۔ وہ سب مظاہر فطرت کے نمائندے سمجھے جاتے تھے۔ مثلاً