ثابت ہوگی۔ معاملات،سیاسیات، اجتماعیات وغیرہ ہر شعبہ زندگی کا یہی حال ہے۔ ہرایک کے متعلق قرآن میں اور سنت خاتم النبییین میں ایسے اصول وضوابط بیان فرمادئیے گئے ہیں جو قیام قیامت تک رہنمائی کے لئے بالکل کافی اور وافی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایسے معیار ہمارے ہاتھ میں دئیے گئے ہیں۔ جن سے ہم قیامت تک ہونے والے ہر نظام کی صحت وغلطی معلوم کر سکتے ہیں۔
غرض یہ کہ دین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جسے خاتم المرسلینﷺ نے ناقص چھوڑا ہو یا جس میں کسی ترمیم وتنسیخ کی گنجائش ہو۔ بلکہ ہر شعبہ کامل ومکمل اور ہر زمانہ کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہے۔ اس کے بعد کسی نبی ورسول کی بعثت بالکل بیکار ہو جاتی ہے اور محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کسی جدید پیغمبر کا آنا بالکل بے معنی اور بے ضرورت ہو جاتا ہے۔ یہی معنی ختم نبوت کے ہیں۔
تیسرا زاویہ
تاریخ کی رفاقت میں ماضی کا سفر اگرچہ بہت دور تک نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ تھوڑا ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد صعوبت سفر اس رفیق کو رفاقت سے روک دیتی ہے۔ مگر باوجود اس کے یہ سفر دلچسپ بھی ہے اور مفید بھی۔ ایک مرتبہ اس رفیق کو لے کر ماضی میں جہاں تک ممکن ہو پہنچئے اور آخری منزل سے پھر حال تک مراجعت فرمائیے۔ اس سفر کی انتہاء جس قلمرو پر ہوگی وہاں سے واپسی میں پہلی منزل جذبات کی آئے گی اور آخری عقلیت کی۔
اجتماع انسانی پر ان تینوں قوتوں یعنی حواس، جذبات اور عقل کا باری باری غلبہ ہراس شخص کے سامنے واضح ہو سکتا ہے جو تاریخ عالم کا مطالعہ ذرا غآئر نظر سے کرے اور اسے محض حوادث کے ایک سلسلہ کی حیثیت سے دیکھنے کے بجائے اس نظر سے دیکھے کہ اس کے کس دور میں حیات اجتماعی کا رخ متعین کرنے کا کام بحیثیت مجموعی اغلب واکثر کے اعتبار سے انسان کی کس فطری قوت وطاقت کے ہاتھ میں رہا ہے۔
تمدن کی ابتدائی حالت میں انسان کی سب سے زیادہ رہنمائی اس کے حواس ظاہرہ نے کی۔ا س کا مظاہر فطرت سے واسطہ تھا اور ان کی تاثیر سب سے پہلے حواس پر ہوئی تھی۔ اوّلین تاثیر اور شدت کے ساتھ عقل ابھی شیر خوار تھی۔ اس جواب پر کیسے قابو پاسکتی تھی۔ علاوہ بریں اجتماعی حافظہ حواس کے ذریعہ معلومات کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف تھا۔ تاکہ عقل انسانی کا