کہاں؟ کے جواب میں بھی عقل ہر غلط راسطے پر تگ ودو کر چکی تھی۔ موت کو مکمل فنا کے مرادف سمجھنے والا گروہ بھی اس وقت موجود تھا۔ قرآن مجید دیکھو تو جگہ جگہ اس کی تردید ملے گی۔ نظریہ تناسخ کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے۔ اس کے ماننے والے خالص فلسفی بھی تھے اور بعض ایسے مذاہب کے پیرو بھی جو درحقیقت فلسفے ہی تھے۔ لیکن مرور زمانہ اور توارث کی وجہ سے ادیان ومذاہب کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ فلسفیوں کی سرزمین یونان میں ایک طرف تومابعد الموت کا تصور بہت ہیبت ناک پایا جاتا تھا جو ان کے قصص الاصنام (Myt Holo Gy) کا ایک باب تھا۔ دوسری طرف ارسطو افلاطون اور بعض فلاسفہ نے اس عامیانہ تصور میں ترمیم کر کے فلسفیوں اور فلسفہ کی فوقیت وتقدیس کا نقشہ تیار کر لیا تھا۔ یعنی حیات بعد الممات کو ایک ارتقاء نفسی عقلی کے مرادف قرار دے کر ان کی عظمت کو دائمی بنانا چاہا تھا۔ بلکہ سچ پوچھئے تو انہیں بھی مرتبہ الوہیت تک پہنچانے کی فکر تھی۔ آج کے فلسفی بھی زیادہ تر منکر آخرت اور کمتر مثلاً بعض ثنویہ اسے ایک ارتقاء روحانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا نظریہ کا جوہر وہی ہے محض شکل بدلی ہوئی ہے اور عقلاً اب کوئی ایسا نظریہ وجود میں بھی نہیں آسکتا جو اصل وجوہر کے لحاظ سے مندرجہ بالا نظریات سے جدا ہو اور اس میں شامل نہ ہو جاتا ہو۔ خیر یہ لوگ تو فلسفی تھے۔ غضب تو یہ تھا کہ یہودیت ونصرانیت بھی جن کی بنیاد وحی ربانی پر قائم کی گئی تھی۔ تعلیمات انبیاء سے بیگانہ ہوکر یقین آخرت کا سرمایہ بالکل برباد کر چکی تھیں۔ عالم آخرت کا ایک دھندلا سا تصور ان میں ضرور موجود تھا۔ مگر ان تصور کا رنگ اس قدر پھیکا پڑ چکا تھا کہ بڑی سے بڑی طاقت کی خوردبین بھی اسے واضح نہ کر سکتی تھی۔ تفصیلات میں بے راہ روی اور گمراہی تو حد سے تجاوز کر چکی تھی۔ وجہ ظاہر ہے، کتاب الٰہی غیر محفوظ اور محرف ہوچکی تھی۔ محض متوارث تصورات باقی رہ گئے تھے۔ ان میں فلسفہ کی آمیزش اور انہیں فلاسفہ کے اقوال کے مطابق بنانے کا جذیہ اس کے ساتھ کشف والہام کو علم کا ذریعہ سمجھ لینا بلکہ وحی ربانی پر اسے فوقیت دینا یہ سب امور تھے۔ جنہوں نے یہودونصاریٰ کو عالم آخرت کے متعلق صحیح علم ویقین سے محروم کر دیا تھا۔
غور کیجئے! زندگی کے وہ سب مسائل جن سے دین کی بحث ہوتی ہے۔ انہیں تین مسئلوں کے تحت داخل ہو جاتے ہیں۔ ان مسائل کے متعلق جس قدر گمراہیاں ہوسکتی ہیں وہ سب اس وقت مجتمع تھیں۔ آج کی کسی دینی گمراہی کو لے لو۔ اس کا سلسلہ انہیں جاہلی تصورات تک پہنچے گا