کمی پیدا کر دی۔ اس کے بعد اسے اپنے نظریہ کی شکل میں پیش کیا۔
(The History of Europeon Morales از ایڈورڈہارٹ پورلیکی اس کے یہاں بھی ضمیر کی تصویر بغور دیکھنے سے نظر آتی ہے۔ شاید واقیت کی خشکی اور عقل پرستی کے بالمقابل عملیت یا نتاتجیت (Pragmatism) کا نظریہ ہے۔ اسے بھی جدید سمجھنا غلطی ہے۔ ولیم جیمس کو (جو اس کا بہت حامی ہے) اقرار ہے کہ یہ بہت قدیم نظریہ ہے۔ اسے امریکی فلسفہ کہنا غلط ہے۔ بلکہ فلسفہ کے دور میں اس کا سراغ ملتا ہے۔
( Typs of Philosophy.)
شبہ ہو سکتا ہے کہ مارکس کا نظریہ اخلاق بشرطیکہ اسے کوئی نظریہ بھی کہا جاسکے جو پورے نظام اخلاق کو معاشی حالات کے تابع اور دل ودماغ کے بجائے معدہ وامعاء کی پیداوار قرار دیتا ہے۔ سرور عالمﷺ کے زمانہ میں یا آپؐ سے پیشتر کہاں موجود تھا؟ لیکن درحقیقت یہ شبہ بے بنیاد ہے۔ مارکس کے اس بیان میں جدت صرف طرز بیان تک محدود ہے۔ ورنہ یہ بھی نظریہ افادیت ہی کی ایک شکل ہے۔ جسے اس نے مذاق زمانہ کے مطابق نئے طرز پر پیش کیا ہے۔ شراب کہنہ ہے۔ مگر ساغر جدید ہے جو کہنگی کی وجہ سے تیز تر اور ذوق گمراہ کے لئے لذیذ تر ہوگئی ہے۔ مغالطہ جدت کی بنیاد بھی یہی ہے۔
فلسفوں کے مقابلے میں دینی اخلاقیات ہے جس میں سب سوالوں کا جواب صرف اعتقاد آخرت سے دیا جاتا ہے۔ یہودیت ونصرانیت اسی نظریہ کی حامل تھیں۔ مگر یہ تصور اس قدر دھندلا ہوچکا تھا اور اس کی تفصیلات میں اس قدر غلطیاں واقع ہوئی تھیں کہ عملاً اس کا وجود اس کے عدم کے برابر تھا۔ یہود کے ایک طبقہ میں تو آخرت کا عقیدہ بھی مفقود ہو چکا تھا۔ مسیحیت میں بھی یہ نقش بہت ہی دھندلا ہوچکا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اپنی حقیقی شکل بدل چکا تھا۔
درحقیقت یہودیت ومسیحیت دونوں اپنی حقیقی صورت میں معدوم ہو چکی تھیں۔ فلسفوں کی آمیزش نے ان کے جوہر کو فنا کر دیا تھا۔ انہیں نہ فلسفہ کہا جاسکتا تھا نہ دین۔ تاہم دین کے بجائے فلسفہ کا لفظ ان کے لئے زیادہ موزوں تھا۔ وہ خود بھی اسی میں فخر محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ حکماء یونان کی طرف انتساب اپنے لئے باعث عزت سمجھتے تھے۔ مثلاً فیثاغورث کو مختون یہودی اور افلاطون کو ایک اسرائیلی پیغمبر کا صحابی مشہور کر کے اپنے محرف دین کا اعزاز بڑھانے کی کوشش کرتے تھے۔ ( The History Europeon Morales.)