چھوڑ گئی تھی۔ جس کا نام مسیحیت بدستور باقی رکھا گیا۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ’’مسیح اور مسیحیت‘‘ مولفہ شرر مرحوم)
کہنا یہ ہے کہ بعثت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کے وقت منکرین وجود باری بھی موجود تھے۔ اس کا اقرار واعتراف کرنے والوں میں عقلاً جس قدر گمراہیاں ہوسکتی ہیں وہ سب موجود تھیں۔ فلسفیانہ ضلال بھی اپنی انتہاء کو پہنچ چکا تھا اور مذہبی بداعتقادی اور گمراہی بھی سب مراحل طے کر چکی تھی۔ زیربحث فطری سوال کے متعلق عقل انسانی کوئی ایسا احتمال پیدا نہیں کر سکتی جو اس وقت موجود نہ ہو اور کوئی ایسا پہلو نکالنا اس کی قدرت سے باہر ہے جو اس وقت تک ظاہر نہ ہوچکا ہو اور اپنے جوہر کے لحاظ سے جدید کہا جاسکے۔ گویا شیطان، زیغ وضلال کا نقشہ مکمل کر چکا تھا۔ اس کے بعد صرف رنگ بھرنے کا کام رہ گیا جو قیامت تک جاری رہے گا۔
اختلاقیات (Ethics) کا سنگ بنیاد کیوں ہے۔ معلم اعظمﷺ کی بعثت مقدسہ جس زمانہ میں ہوئی ہے اس میں عقل اس عمارت کی تکمیل کر چکی تھی۔ یعنی اس موضوع کے متعلق جتنی گمراہیاں عقلاً ہوسکتی ہیں۔ ان سب کی بنیادیں پڑ چکی تھیں۔ بلکہ درحقیقت دیواریں بھی تعمیر ہوچکی تھیں اور فلسفیانہ ادیان نے اپنے حسب منشاء چھتیں بھی قائم کر لی تھیں۔ بعد کے فلسفیوں نے اس پر صرف پلستر کیا ہے یا نقش ونگار بنانے میں اپنی ذہانت دکھائی ہے۔
درحقیقت اخلاقیات کی روح صرف دو مسئلے میں معیار اخلاق اور محرک دونوں کے متعلق اپیکورس کی لذتیت (Hedonism) اور مل ہابس وغیرہ کی افادیت (Utilitarionism) میں حقیقت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔ اگر فرق ہے تو طرز بیان، اسلوب نگارش اور عنوان کا جو قابل اعتنا نہں جیسا کہ خود مل نے اعتراف کیا۔
(Utilitarianism مصنفہ جان اسٹوارٹ مل)
ہیوم یا آدم اسمتھ نے ضمیر (Conseience) پر یورپ کے دور جدید میں زور دیا۔ مگر انہیں اس نظریہ کا باوا آدم سمجھنا غلط ہے۔ ارسطو کے نظریہ عدل کو اس کے وجدان کے برابر بٹھا کر دیکھئے تو ضمیر کا پردہ اٹھ جائے گا۔
رواقیہ (Stoics) کی جذبات کشی اور عقل پرستی مدت دراز تک رومہ پر حکمرانی کر چکی تھی۔ افلاطون اور ارسطو نے درحقیقت اس پر غاصبانہ تصرف کر کے اس کی تیزی وحدّت میں