تبدیلی نہیں ہوئی نہ اس وقت تک ہوسکتی ہے۔ جب تک دہریت دہریت ہے۔
دوسرا جواب دینیت (Taeism) کے نام سے موسوم ہے۔ یہ نام اگرچہ صحیح نہیں مگر مشہور ہے۔ اس کا ماحصل وجود الٰہی کا اقرار ہے۔ مگر صرف اس اقرار پر معاملہ ختم نہیں ہو جاتا۔ وہ فلسفہ جو وجود باری کے معتقد ہیں ایک ایسے خدا کا اقرار کرتے ہیں جو ان کے ذہن کا ساختہ پرداختہ اور نظام عالم میں تقریباً بے اثر ہے۔ افلاطون اور ارسطو کی ثنویت (Dualism) میں بھی ان کے مزعومہ خدا کی وہی بے چارگی نظر آتی ہے۔ جو اسپنوز کے وحدۃ الوجود میں پھر یہ وحدۃ الوجود بھی کوئی اسپنوزا کی جدت فکر نہیں ہندوستان میں تو یہ فلسفہ اس سے بہت پہلے مذہبی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔( Story of Philosophy.)
دینیت کی دوسری شکل تشبیہ اس زمانہ میں پورے شباب پر تھی۔ خدا کو صفات وکردار کے لحاظ سے انسانوں جیسا سمجھنا بہت سے مذاہب وادیان کا جوہر تھا۔ صرف ان ادیان کا نہیں جو وحشت ناک صحراؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ بلکہ بعض ان ادیان کا بھی جن کی تخم ریزی تمدن کی زمین میں اور جن کی آبیاری فلسفہ سے کی گئی تھی۔
تعطیل وتشبیہ کے علاوہ مذاہب کی ایک شکل اور باقی رہ جاتی ہے جس کا نام شرک ہے۔ اس کی جتنی شکلیں اس وقت پائی جاتی تھیں۔ ان میں شاید اب تک کوئی اضافہ نہیں ہوسکا اور ہو بھی جائے تو اتنی شکلیں دیکھ لینے کے بعد اس کی غلطی کا سمجھ لینا معمولی جمع وتفریق کا سوال لگالینے سے بھی زیادہ آسان ہے۔ ستارہ پرستی، آفتاب پرستی، نور پرستی، ظلمت پرستی، حجر پرستی، شجر پرستی، آب پرستی، نار پرستی، حیوان پرستی، انسان پرستی، وطن پرستی، ہیرو پرستی اور اسی طرح کی بہت سی پرستشیں کثرت کے ساتھ رائج تھیں۔ یہی نہیں بلکہ چین میں تو آبأ پرستی وارواح پرستی بھی پوری قوت کے ساتھ قدم جمائے ہوئے تھی۔
توراۃ وانجیل میں تحریف ہو چکی تھی۔ حقیقی یہودیت فلسفہ کی آمیزش کی وجہ سے نہ صرف اپنی شکل بلکہ اپنا جوہر بھی کھو چکی تھی۔ نصرانیت، یہودیت سے اصطباغ لے کر اپنے اصلی رنگ سے محروم ہوچکی تھی۔ پولوس نے اسے یہودیت کی ایک شاخ بنایا۔ رومی سلطنت نے اس کی سرپرستی کر کے اس میں بت پرستی کی قلم لگائی۔ یونان نے اس میں فلسفہ کی آمیزش کی۔ اس طرح خاتم النبیین کے عہد مبارک میں حقیقی مسیحیت مفقود ہوکر اپنے بجائے یہودیت، شرک اور فلسفہ کے ایک مجموعہ کو