رہے تھے اور ہدایت وحقیقت کے آب شیریں سے محروم ومحبوب تھی کہ ابر رحمت، محمد رسول اﷲﷺ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جس نے صحیح جوابات کے آب حیات سے مردہ دلوں کو نئی زندگی، بے چین روحوں کو حقیقی تسکین اور فطرت انسانی کو شگفتگی ومسرت سے ہمکنار کیا۔
زمانہ کی عمر میں ساتویں صدی مسیحی اس کا ممتاز ترین حصہ ہے۔ خاتم النبیینﷺ ہدایت وصداقت کا آخری صحیفہ لے کر تشریف لائے۔ جس کے انوار نے ظلمت کدہ عالم کو روشن کر دیا۔ لیکن یہی حصہ اس اعتبار سے بھی خصوصی امتیاز رکھتا ہے کہ اس میں کفر وباطل کی ساری ظلمتیں جمع ہوگئیں تھیں۔ جاہلیت کوس ’’لمن الملک‘‘ بجا رہی تھی اور جنود ابلیس شرق سے غرب تک مہبط آدم (علیہ السلام) کو پامال کر رہے تھے۔
کیسے؟ کیوں؟ اور کہاں؟ اور تینوں سوالات میں سے ہر ایک کو باری باری سامنے لائیے اور دیکھئے کہ اس کے جواب میں اس وقت دنیا کس قدر گمراہی میں مبتلا تھی۔
یہ کائنات خودبخود وجود میں آگئی یا کوئی اس کا پیدا کرنے والا ہے؟ عقلاً اس کے صرف دو جواب ہوسکتے ہیں۔ جن کی مختصر تعبیر ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے کہ خدا کا وجود ہے یا نہیں؟ مابعد الطبیعات (Meta Physics) کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا سلسلۂ نسب بالواسطہ یا بلا واسطہ مسئلہ وجود باری تک نہ پہنچتا ہو۔ اس کے متعلق وحی ربانی کی اتباع کے بغیر عقل گمراہ جس قدر احتمالات نکال سکتی ہے وہ سب اس وقت تک نکل چکے تھے اور کوئی نہ کوئی ان کا قائل موجود تھا۔ فلسفی بھی اپنا زور ختم کر چکے تھے اور ادیان باطلہ بھی۔
خدا کی منکر دہریت یا ماویت جس نے ویمقراطیس کی گود میں شیرخوارگی کا زمانہ بسر کیا۔ اپیکورس کی سرپرستی میں پیروں چلنے لگی۔ لیوکریشس کے آغوش عاطفت میں پل کر بلوغ کو پہنچ چکی تھی۔ دور حاضر کے دہری فلاسفہ ہابس، اسپنر، لڈوک وغیرہ نے اس کی سرپرستی صرف اس حد تک کی ہے کہ اس کے لئے نئی ضرورتوں اور نئے مذاق کی مناسبت سے غذائیں اور فیشن ایبل لباس مہیا کرتے رہے۔ بیسویں صدی کے مشہور فلسفیوں اور حامیان دہریت مثلاً برٹرنیڈرسل، جارج سنٹیانا وغیرہ کی تحریروں کو دیکھ جاؤ۔ سوائے اس کے کچھ نہ ملے گا کہ انہوں نے اسی قدیم دہریت کو جس کی پیدائش کے متعلق تاریخ بالکل خاموش ہے۔ نئے لباس میں پیش کیا ہے۔ نظریہ کا اصل جوہر یعنی بغیر خدا کے کائنات کا وجود اور اس کے نظام کا جاری رہنا ایک ایسی چیز ہے جس میں کوئی