کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیڑھے اور مقصد سے دور کرنے والے رضاء الٰہی کے بجائے عذاب الٰہی کی طرف لے جانے والے راستوں کو بھی ظاہر کر دیتی ہے۔ گویا وہ چشمۂ آب حیات تک پہنچانے کے ساتھ سراب کے فریب وخطرات سے بھی آگاہ کر دیتے ہیں۔ تاکہ کوئی شخص ان کی طرف رخ نہ کرے اور زیغ وضلال میں مبتلا ہوکر عذاب آخرت کا مستحق نہ ہو جائے۔ گویا انبیاء علیہم السلام کے دو کام ہوتے ہیں۔
٭… ہدایت ورشد اختیار کرنے کی تعلیم۔
٭… زیغ وضلال سے بچنے کی تعلیم۔
جو شخص بھی انبیاء کرام کے حالات سے واقف ہے وہ اس منہاج نبوت سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس تمہید کے بعد کچھ دیر کے لئے خاتم النبیین کے مبارک دور پر ایک غائر نظر ڈال لیجئے۔ نبی اکرمﷺ کی بعثت ایسے وقت میں ہوئی جب مندرجہ بالا سوالات کا وہ جواب دنیا کے سامنے آچکا تھا۔ جہاں تک بغیر امداد وحی ربانی تنہا عقل انسانی کی رسائی ہوسکتی تھی۔ یا آج ہوسکتی ہے۔ فلسفی اپنی ذہانت کا ذخیرہ ختم کر چکے تھے۔ وہ مذاہب جن کی تعمیر وحی ربانی کے بجائے کسی فلسفہ کی بنیاد پر ہوئی ہے اور جن کی خشیت اوّل کسی نہ کسی قسم کا فلسفہ ہے۔ اپنے بسیط اقسام ختم کر چکے تھے۔ محرف شدہ آسمانی مذاہب کی کلی نمائندگی مسخ شدہ یہودیت ونصرانیت کر رہی تھیں۔ جنہیں فلسفوں کی آمیزش نے اصل محور سے بہت دور کر دیا تھا اور اب درحقیقت ان کی گردش تورات وانجیل کے بجائے فلاسفہ یونان وروما کے اقوال کے گرد ہورہی تھی۔ ان کی کتابیں محرف ہوچکی تھیں اور ہدایت ان لوگوں کی بے مروتی وقدرشناسی سے دل شکستہ ہوکر ان کی طرف سے منہ موڑ چکی تھی۔ مجوسیت، صابیت، بدھ ازم، برہمنیت، سب درحققیت فلسفے تھے۔ جنہوں نے مختلف اسباب کی بنا پر دین ومذہب کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ان سب کے لئے دین سے زیادہ فلسفہ کا لفظ موزوں ہے۔ یہودیت ونصرانیت میں فلسفہ کی کثیر آمیزش کے باوجود دینی عنصر ان مذاہب سے زیادہ باقی رہ گیا تھا۔ تاہم فلسفہ کا اژدھا ان کا بھی بڑا حصہ نگل چکا تھا۔ ان امور پر نظر کیجئے تو آپ اس حقیقت کو روز روشن سے زیادہ روشن پائیں گے کہ مندرجہ بالا سوالات میں سے ہر ایک کا ہر عقلی جواب ختم ہوچکا تھا اور ان میں ہر جواب محض باطل اور غلط تھا۔ دنیا کو صحیح جواب کا انتظار تھا۔ جو بالکل مفقود تھا۔ دنیا شدید تشنگی کی حالت میں سراب کی طرف دوڑ رہی تھی۔ جس کی طرف یہ فلسفے اور ادیان اشارہ کر