ایک دوسرا زاویہ
بعثت محمدیﷺ کے بعد کتاب وسنت کی موجودگی، ہدایت کی ضمانت، ختم نبوت کی یقینی علامت اور کسی نبی کی بعثت سے مستغنی کرنے والی شے ہے۔ یہ وہ روشن حقیقت ہے جس کی نقاب کشائی پچھلے صفحات میں کی جاچکی۔ اس کا تابندہ چہرہ ہر صحیح زاویہ سے صاف نظر آتا ہے۔ ایک زاویہ نظر سے آپ نظر کر چکے۔ اب دوسرے سے اس کا نظارہ کیجئے۔
کیسے؟ کیوں؟ اور کہاں؟ یہ تین سوالات ہیں جو فطرت انسانی میں اس طرح آمیز کر دئیے گئے ہیں کہ انسان کے لئے ان پر غور کرنا ناگزیر ہے۔ ہم کیسے وجود میں آئے؟ خود بخود یا کسی خالق کے حکم سے؟ بصورت ثانیہ اس خالق کے کیا اوصاف ہیں؟ ہمارے وجود اور ہماری حیات مستعار کا مقصد کیا ہے؟ اور ہمارا انجام کیا ہے؟ یا بالفاظ دیگر ہمیں مرنے کے بعد کہاں جانا ہے؟ دنیا کا کوئی انسانی ذہن جو بالکل ناکارہ نہیں ہوچکا ہے۔ ان سوالات سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یہی وہ مسائل ہیں جنہیں امہات المسائل کہا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ زندگی وموت کے متعلق ہزاروں مسائل انہیں کی نسل اور انہیں کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں۔
ان مسائل سے چشم پوشی ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے بھی ان سوالات کا جواب دیا ہے۔ فلسفیوں نے بھی ان سے بحث کی ہے۔ ان ادیان وملل نے بھی ان سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی ہے۔ جنہوں نے انبیاء سے مستفید ہونے کے بعد ان کی تعلیمات سے انحراف کیا ہے اور وہ ادیان بھی ان سے اپنا دامن نہیں بچا سکے۔ جن کی بنیاد تعلیمات انبیاء یا کتب الٰہیہ کے بجائے کسی فلسفہ یا کشف یا اشراق پر قائم کی گئی ہے۔ صحیح جواب صرف نبی ہی کی زبان فیض ترجمان واضح کرتی ہے۔ بقیہ جوابات غلط اور حقیقت سے منحرف ہوتے ہیں۔
ہر زمانہ کے نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ ان سوالات کا صحیح جواب دے کر مخاطبین کی فطری پیاس کو تسکین دے اور اس جوہر تابندہ کو اس طرح پیش کرے کہ اس دور کے غلط جوابات کے حزف ریزوں کی جھوٹی اور مصنوعی تابندگی اس کے سامنے خود بخود ماند پڑ جائے اور ان کا باطل ہونا بالکل واضح ہو جائے۔ نبی کا راستہ سیدھا اور بے خطر ہوتا ہے۔ جو حق تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی تک پہنچاتا ہے۔ ادیان باطلہ اور فلسفوں کے راستوں کا اصل مقصد سے انحراف اور ان کی ہلاکت خیزی اس صراط مستقیم کو دیکھ کر واضح ہو جاتی ہے۔ وہ ایسی روشنی لے کر آتے ہیں جو صراط مستقیم کو روشن