دوسری شق اختیار کرنے پر بھی وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی تشریح وتفصیل کے لئے کسی نبی ہی کے آنے کی کیا حاجت ہے؟ اگر امتی اس بیان وتشریح سے عاجز وقاصر ہیں تو ہر زمانہ میں کسی نہ کسی نبی کا وجود لازم ہے۔ حالانکہ یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے جس کی غلطی مشاہدے سے ثابت ہے۔
علاوہ بریں نبی کی موجودگی کی صورت میں عادۃً بھی یہ ناممکن ومحال ہے کہ وہ ہرشخص کے سامنے پیش آنے والے ہر جزئی مسئلہ کے متعلق قرآن وحدیث کا بیان اور اس کی تشریح پیش کرے۔ ذرائع خبر رسانی کی اتنی ترقی کے باوجود ایک شخص کے لئے یہ ناممکن ہے کہ کروڑوں سوالات کا جواب روزانہ دیتا رہے۔ خود نبی کریمﷺ کے مبارک دور میں بہت سے مسائل وجزئیات کے متعلق مسلمانوں کو اجتہاد کرنا پڑا۔ اگرچہ اس قسم کے مسائل کی تعداد قلیل ہے۔ مگر پھر بھی خاصی ہے جن میں صحابہ کرامؓ نے خود اجتہاد کیا اور نصوص کا بیان اپنی فہم سے کیا ہے۔ یہ صرف صحابہ کرامؓ کا فعل ہی نہیں بلکہ خود نبی کرمﷺ نے اس طریق کار کی تعلیم دی ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجتے وقت آنحضورﷺ نے نص صریح کی عدم موجودگی کی صورت میں انہیں اجتہاد واستنباط کی ہدایت فرمائی تھی۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہر جزئی مسئلہ کی تشریح کے لئے نبی کی احتیاج نہیں۔ بلکہ نبی کے بیان کی احتیاج ایک خاص دائرہ تک محدود ہے۔ اس دائرے کی وسعت کے متعلق عقل خالص پہلے سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ مگر نبی کے تشریف لے جانے کے بعد وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اس کے حدود ختم ہو چکے ہیں اور اس کے بعد کسی دوسرے نبی کا اس مقصدسے آنا بالکل بے ضرورت ہے اور جب تک کسی دلیل شرعی قطعی ویقینی سے کسی نبی کی ضرورت واحتیاج نہ ثابت ہو جائے۔ اس وقت تک وہ اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوسکتی۔ ظاہر ہے کہ اگر امت بعض مسائل کے متعلق قرآن وحدیث کی تشریح خود کر سکتی ہے۔ تو کل غیر منصوص مسائل میں سے ایسا کرنے سے کون مانع ہے؟ اور اس کی اس استطاعت کے بعد کسی نبی کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
اس برہان روشن سے بھی عقیدہ ختم نبوت واضح اور روشن ہو جاتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ خاتم النبیینﷺ کے بعد کسی نبی کی بعثت کی کوئی ضرورت واحتیاج نہیں ہے۔ بلکہ قرآن وحدیث کی رہنمائی قیام قیامت تک کافی ووافی ہے۔