کتاب وسنت کی موجودگی کی صورت میں کسی نبی کی بعثت کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ رشد وہدایت کے یہ دوسرچشمے موجود ہیں اور سارے عالم اسلام کو سیراب کرنے کے لئے بالکل کافی ووافی ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ کسی نبی کی بعثت کی بھی ضرورت ہے۔ ایک سفیہانہ بات ہے۔
اﷲتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ دین قیامت تک باقی رہے گا۔ ظاہری اسباب بھی یہی بتارہے ہیں کہ اسلام دائمی اور ابدی دین ہے اور کتاب وسنت ہدایت کے ایسے سرچشمے ہیں جو کبھی خشک نہیں ہوسکتے۔ آب حیات کے ان لافانی اور ابدی چشموں کے ہوتے ہوئے کسی نبی کے وجود کی پیاس جھوٹی پیاس ہے۔ جو دل ودماغ کی بیماری اور عقل وفہم کی خطرناک علالت کی علامت ہے۔ اگر ہم کسی نئے نبی کی بعثت فرض کریں تو فطرتاً یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس کا کیا کام ہوگا؟ وہ شریعت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کو منسوخ کر کے کسی نئی شریعت کی تعلیم دے گا؟ یا اسی شریعت کا اجراء کرے گا؟ کسی نئی کتاب اور نئی سنت سے قرآن مجید اور سنت محمدیہﷺ کو منسوخ کرے گا یا اسی کتاب اور اسی سنت کی تشریح وتفصیل کرے گا؟ اگر پہلی صورت فرض کی جائے تو پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ضرورت کیا ہے؟ قرآن وسنت سراپا ہدایت ہیں۔ ان میں کیا کمی ہے جس کی تکمیل کسی نئی کتاب اور نئے نبی کے ذریعہ سے کی جائے۔
جو شخص۱؎ بھی اسلام کا مدعی ہے ہرگز یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ قرآن وحدیث ہدایت کے لئے ناکافی ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کے لئے بھی یہ بات کہنا مشکل ہے جو شخص ایسا کہتا ہے اس کے ذمہ ہے کہ وہ قرآن وحدیث کو ہدایت کے لئے ناکافی یا ناقص ثابت کرے۔ کوئی مشکل سے مشکل مسئلہ جس کا تعلق دین کے ساتھ ہو قرآن مجید اور حدیث نبوی کے سامنے پیش کرو۔ تم دیکھو گے کہ وہ مشکل کیسی آسان ہو جاتی ہے اور مسئلہ کا کیا عمدہ واعلیٰ حل نکل آتا ہے۔ البتہ فہم سلیم اور علم صحیح کی احتیاج ہے۔
۱؎ شیعہ، تحریف قرآن کے قائل ہیں اور اسے ناقص سمجھتے ہیں۔ اہل سنت کے ذخیرہ احادیث کو صحیح نہیں تسلیم کرتے۔ لیکن اوّل تو ان کا دعویٰ اسلام قابل تسلیم نہیں ہے۔ اس لئے ان کے کسی قول وفعل کی ذمہ داری ہمارے اوپر عائد نہیں ہوتی۔ دوسرے وہ بھی اپنے عقیدہ تحریف ونقص قرآن کو چھپاتے ہیں اور برملا اس کے اظہار کی جرأت نہیں کرتے۔