جماعت تیار کرنے کے بعد نبی کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام عموماً اس کام کی تکمیل کے بعد دنیا سے اٹھالئے گئے۔
یہاں بحث یہ ہے کہ خاتم النبیین محمد مصطفیﷺ کے بعد کسی نبی کی بعثت کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اوپر کی سطروں میں ہم نے ایک عام اصول بیان کیا ہے۔ اسے اس خاص اور جزئی مسئلہ پر منطبق کیجئے۔ آفتاب نصف النہار کی طرح یہ بات واضح ہو جائے گی کہ محمد عربیﷺ کے بعد قیامت تک کسی نبی کی بعثت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے نبی کریمﷺ تئیس سال تک اپنے وجود مسعود اور انفاس قدسیہ سے اس عالم تیرہ وتار کو منور فرماتے رہے۔ اس کے بعد اس عالم دنیا سے عالم آخرت میں اپنے رب کریم کے حضور میں تشریف لے گئے۔ اپنے ترکہ میں تین چیزیں آپ نے چھوڑیں۔ اﷲ کی نورانی کتاب یعنی قرآن کریم، اپنی سنت سنیہ یعنی اپنے اقوال وافعال وتقریرات۱؎، تیسری چیز جماعت صحابہؓ، یعنی ایک لاکھ سے زائد ایسی منور، ربانی اور پاکیزہ شخصیتیں جو براہ راست معلم اعظمﷺ سے مستفید ہوئیں اور ان کے علوم عالیہ کی حامل ومحافظ اور ان کا عملی نمونہ تھیں۔ یہی نہیں بلکہ اس امانت نبویہ کو دوسروں تک پہنچانے کی حریص تھیں۔ قرآن کریم سینوں اور سفینوں میں اس طرح محفوظ رہا کہ اس کا ایک ایک حرف ایک ایک شوشہ آج تک محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کے جو اسباب حق تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں اور جو طریقے مقرر فرمادئیے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہر شخص یقین کرنے پر مجبور ہے کہ اﷲ کا یہ کلام تاقیام قیامت محفوظ اور ہر قسم کی تحریف سے پاک رہے گا۔ اس کی حفاظت ایسی ہوگی کہ معاند سے معاند غیر مسلم بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ قرآن مجید ہر قسم کی تحریف سے پاک رہے گا۔ اس کی حفاظت ایسی ہوگی کہ معاند سے معاند غیر مسلم بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ قرآن مجید ہر قسم کی تحریف سے مبرّا ہے نہ اس میں کمی ہوئی ہے نہ زیادتی۔ نہ اس کے الفاظ یا آیتوں کی ترتیب میں کوئی فرق پڑا۔ اس کا ایک ایک حرف وہی ہے جو رسول اکرمﷺ پر نازل ہوا تھا اور جو آنحضورﷺ نے قبل از وفات امت کے سپرد فرمایا تھا۔ قرآن مجید کا ایک ایک حرف متواتر ہے۔ سنت کو اگرچہ یہ بات حاصل نہیں مگر مجموعی طور پر سنت بھی متواتر ہے۔ اگرچہ اس کے سب اجزاء متواتر نہیں۔ تاہم یہ یقینی ہے کہ سنت نبوی بھی محفوظ ہے اور تعامل پریس کی قوت اور دیگر اسباب نے اسے قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا ہے۔
۱؎ تقریرات تقریر کی جمع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام آنحضورﷺ کے سامنے کیاگیا ہو اور آپؐ نے اس سے منع نہ فرمایا ہو۔