ظاہر ہے کہ اس کا بار ثبوت منکرین ختم نبوت پر ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اس باب میں ہم نے یہ اسلوب نہیں اختیار کیا ہے۔ بنابریں ہم ان اسباب کو بیان کرتے ہیں۔ جن کا وجود یقینی طور پر کسی نبی کی آمد وبعثت کی ضرورت کو معدوم کر دیتا ہے۔ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انبیاء علیہم السلام ہدایت خلق اﷲ کے لئے مبعوث ہوتے ہیں۔ ان کی تشریف آوری کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ وہ بندوں کا تعلق ان کے معبود حقیقی کے ساتھ قائم ومستحکم کر دیں۔
انبیاء علیہم السلام اس عظیم مقصد کو تین طریقوں سے حاصل کرتے ہیں:
٭… کتاب الٰہی کی تعلیم وتشریح سے۔
٭… خود اپنے افعال واعمال سے۔
٭… اپنی شخصیت عظیمہ سے۔
انبیاء علیہم السلام کتاب الٰہی کا مفہوم اور اس کے مقاصد واضح فرماتے ہیں۔ اس کے کلیات کو جزئیات پر منطبق فرما کر اور جزئیات سے کلیات اخذ فرماکر نہج استنباط واجتہاد روشن فرماتے ہیں۔ اپنے اقوال وافعال سے کتاب الٰہی کے احکام کی عملی شکل متعین فرماتے ہیں۔ مجموعی طور پر کتاب الٰہی جس طرز زندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کا عملی نمونہ پیش فرماتے ہیں۔ انہیں اقوال واعمال کے مجموعہ کا نام سنت ہے۔ ان کی شخصیت وذات کا اصل فائدہ ان لوگوں کو پہنچتا ہے جو نبی کی شاگردی کا شرف براہ راست حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح انبیاء ایک ایسا گروہ تیار کردیتے ہیں جو ان کے علوم ومعارف کا حامل ہوکر آئندہ نسلوں تک انہیں منتقل کر سکے۔ ایک ایسی جماعت تیار کرنے کے بعد انبیاء کا کام ختم ہو جاتا ہے اور وہ اس امانت الٰہیہ کو اپنے صحابہ کے سپرد کر کے بحکم الٰہی اس عالم دنیا سے سفر کر جاتے ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالو۔ ان برگزیدہ ہستیوں کے متعلق حق تعالیٰ کا یہی طرز عمل پاؤگے اور معاند سے معاند بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو کہ خاتم النبیینﷺ سے پہلے بھی زمانہ کے بکثرت بلکہ اکثر ایسے حصے ملتے ہیں جو نبی کی شخصیت سے بالکل خالی رہے اور ان میںہدایت عالم کا ذریعہ صرف کتاب وسنت رہی۔ کتاب وسنت کی موجودگی ناکافی ہوتی اور شخصیت نبی کا موجود ہونا ہر زمانہ میں ناگزیر ہوتا تو یقینا کوئی زمانہ بھی ایسی شخصیت سے خالی نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھئے کہ کیا نبی کے زمانۂ حیات میں بھی ہر شخص ان کی شخصیت عظیمہ سے براہ راست استفادہ کرتا ہے یا کر سکتا ہے؟ کیا بنو اسرائیل کے لاکھوں افراد میں ہر فرد حضرت موسیٰ وحضرت ہارون علیہما الصلوٰۃ والسلام کا حاشیہ نشین اور ان کے نفوس قدسیہ سے براہ راست مستفید ہوا