وہ سنگ گراں ہے جو وحدت ادیان کا راستہ روک دیتا ہے اور اسے قدم بڑھانے سے مانع ہوتا ہے۔ اس لئے قدرۃً ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے دل ودماغ سے اس عقیدہ کا اقتدار اٹھ جائے تاکہ وحدت ادیان کے لئے میدان ہموار ہو جائے۔ جس سے تبلیغ مذہب کے علاوہ بہت سی سیاسی مصلحتیں بھی وابستہ ہیں۔ بہت سے دین سے ناواقف، مقام نبوت سے بے خبر اور عظمت نبوی سے ناآشنا مسلمان اس ماحول سے متأثر ہوکر ختم نبوت کے بارے میں شک وشبہ یا ان سے انکارکا شکار ہو جاتے ہیں اور مرزاقادیانی آنجہانی کے ایسے لوگوں کو انہیں اپنے دام میں اسیر کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اسی ماحول کا اثر ہے کہ ختم نبوت کے مسئلہ میں ہندوستان (مع پاکستان) میں مسلمانوں کی طرف سے جس قدر کمزوری کا اظہار کیاگیا ہے۔ یا جس قدر مدعیان نبوت یہاں پیدا ہوئے اس کی نظیر شاید کسی اسلامی ملک میں نہ مل سکے۔
خلاصہ کلام
ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ ایک واضح عقیدہ ہے۔ جس کی طرف خود فطرت انسانی مائل ہے۔ بخلاف اس کے سلسلۂ نبوت کا جاری رہنا محتاج دلیل وبرہان ہے اور جب تک اس کے اوپر کوئی دلیل نقلی قطعی ویقینی قائم نہ ہو۔ اس وقت تک اجراء نبوت کے امکان یا وقوع کا دعویٰ کرنا ایک مغالطہ ہے۔ جو نقلاً ہی نہیں بلکہ عقلاً بھی ناقابل تسلیم اور گمراہی ہے۔
ختم نبوت سے انکار کا اصل سبب نبی کریمﷺ پر بے اعتمادی اور ایمان بالرسالت کی کمزوری ہے۔ مقام نبوت سے بے خبری، دین میں فلسفیانہ طرز فکر، یہود کی وسوسہ اندازی، ہندوستانی ماحول اور ان کے پروپیگنڈے سے تأثر، دین سے جہالت اور ناواقفیت، یہ وہ اسباب ہیں جنہوں نے بہت سے مسلمانوں کے دلوں اس عقیدے کے بارے میں شک وشبہ پیدا کر دیا۔ لیکن اوپر کے بیان سے آفتاب کی طرح یہ بات روشن ہوچکی ہے کہ یہ شک وشبہ بالکل بے بنیاد اور دلیل سے قطعاً محروم وتہی دست ہے۔ یہ بیماری اپنی پیدا کی ہوئی ہے۔ جس کی ذمہ داری تنہا مریض پر ہے جن لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اس کے جراثیم دوسروں کے دل ودماغ سے لے کر اپنے دل ودماغ میں داخل کر لئے اور ان کی پرورش کر رہے ہیں۔ اس کا علاج بھی انہیں کے اختیار میں ہے۔ اس زہر کو جس طرح انہوں نے اپنے دل ودماغ پر مسلط کر لیا ہے۔ اسی طرح وہ اسے باہر بھی نکال سکتے ہیں۔ اگر وہ نہیں نکالتے تو نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوںگے۔ لیکن مسلمانوں کا خیرخواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم محض اداء فرض پر اکتفاء نہ کریں۔ بلکہ اس مہلک زہر کا