ان کا تذکرہ ہم نے اوپر کے صفحات میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ یہ اس قعر ضلال میں گرنے کے عام اسباب ہیں جو کسی ملک یا قوم کے ساتھ مخصوص نہیں۔ لیکن ہندوستان (مع پاکستان) کی ایک خصوصیت ایسی بھی ہے جس نے گمراہی وضلال کے اس شجرہ خبیثہ کے لئے اس ملک میں خصوصیت کے ساتھ نشوونما پانے کا بہت مناسب موقع فراہم کر دیا۔ یہ خصوصیت یہاں کا دینی وفکری مزاج ہے۔ ہندوستان (مع پاکستان) میں اسلام کے قدم آنے سے پہلے دین کا کوئی صحیح تصور موجود نہیں تھا۔ بلکہ فلسفہ کا نام دین تھا۔ اسلام کی تاثیر اور مسلمانوں کے اختلاط کی وجہ سے دین وفلسفہ میں کسی قدر امتیاز پیدا ہوا مگر یہ امتیاز بالکل ناقص اور غیرمفید ثابت ہوا۔ اس لئے کہ جو ادیان ومذاہب خود اس سرزمین میں پیدا ہوئے۔ ان سب کی بنیاد فلسفوں پر قائم ہے۔ وحی ربانی اور نبوت کا تصور ان میں سے کسی ایک میں بھی نہیں پایا جاتا۔ ان سب مذاہب وادیان کی انتہاء زیادہ سے زیادہ الہام وکشف پر ہوتی ہے اور بڑی سے بڑی شخصیت رشی (ولی اﷲ) یا اوتار کو قرار دیا جاتا ہے۔ اوتار کا قدیم تصور تو تقریباً خدا کے مرادف تھا۔ مگر نیا تصور اسے ایک لیڈر یا مصلح کے ہم معنی قرار دیتا ہے۔ علم وشخصیت کے یہی دو تصور ہیں۔ جن پر باوجود کثیر اختلافات ہندوستان کے کل مذاہب کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی وحی ربانی اور نبی کے مرادف وہم معنی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت کا مسئلہ سمجھنا ہندوستان (مع پاکستان) کی غیر مسلم قوموں کے لئے بہت دشوار ہے۔ نبوت کی حقیقت اور اس کے درجہ علیاء سے ناواقف لوگ اگر ختم نبوت کے مسئلہ کو نہ سمجھ سکیں تو کیا تعجب ہے؟ وہ نبی کو زیادہ سے زیادہ ایک رشی یا اوتار کا مرتبہ دے سکتے ہیں۔ حالانکہ مقام نبوت سے ان تصورات کو کوئی بھی نسبت وتعلق نہیں۔ اسی طرح وہ وحی ربانی کو زیادہ سے زیادہ الہام یا کشف کے ہم معنی سمجھ سکتے ہیں۔ حالانکہ وحی ربانی کا درجہ کشف والہام سے بدرجہا زیادہ بلند وبرتر اور ان سے کلیتہً ممتاز ہے۔
مقام نبوت سے بے خبری کا نتیجہ ہے کہ ختم نبوت کا مسئلہ ان کی فہم کی گرفت میں نہیں آتا۔ بلکہ اس کے بجائے وہ کسی نئے اوتار کے منتظر رہتے ہیں اور بعض بڑی اور اولوالعزم شخصیتوں کو جنہیں وہ اپنے خیال میں مصلح سمجھتے ہیں۔ مرتبہ نبوت پر فائز یا اپنے الفاظ میں اوتار سمجھنے لگتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ اوتار کے تصور کا درحقیقت اسلام میں نام ونشان بھی نہیں اور نبوت کی حقیقت کو اس اوتار کے مفہوم سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں۔ یہ عام ماحول ہے۔ لیکن ہندو طبقہ میں جو لوگ وحدت ادیان کے مبلغ ہیں۔ اس کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ وہ ختم نبوت کے اسلامی عقیدے کو بہت حیرت وناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ عقیدہ