ان دونوں باتوں کا بہت صراحت ووضاحت کے ساتھ مذکور ہونا اور دلائل شرعیہ قطعیہ سے ثابت ہونا لازم ہے۔ ظنی دلیل کا عقائد کے بارے میں کوئی اعتبار نہیں۔ ان نصوص کتاب یا سنت میں دو وصفوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ یعنی قطعی الثبوت ہونا اور قطعی الدلالتہ ہونا محض مبہم اشارات یا اخبار آحاد جو ظنی الثبوت ہیں۔ اس مقصد کے لئے کافی نہیں ہوسکتے۔ جب تک ایسی یقینی وقطعی دلیل شرعی موجود نہ ہو اس وقت تک عقل سلیم اس امت میں قیامت تک کسی نئے نبی کی بعثت کا امکان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتی اور محمد رسول اﷲﷺ کو یقینی طور پر آخری نبی سمجھنے پر مجبور ہے۔ عقل کے اس رویہ کی تائید مزید اس حجت کو پیش نظر رکھنے سے بھی ہوتی ہے کہ کسی نبی کا مبعوث ہونا امت کے لئے امتحان وابتلاء ہوتا ہے۔ ناممکن ومحال ہے کہ حق تعالیٰ امت کو تعلیم کے بغیر امتحان میں ڈال دیں اور بغیر کسی تیاری کے پرچہ امتحان حل کرنے پر مجبور کریں۔ یہی وجہ ہے کہ سب انبیاء مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم اپنے بعد آنے والے نبیوں کے بارے میں پیش گوئی فرماتے رہے۔ قرآن حکیم کا بیان ہے: ’’واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اٰتیتکم من کتب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ (آل عمران:۸۱)‘‘ {اور جب ہم نے انبیاء علیہم السلام سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں علم اور کتاب عطاء کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو اس چیز کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی امداد کرنا۔}
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ مسئلہ ختم نبوت میں عقلاً وشرعاً بار ثبوت کلیتہً ان لوگوں پر ہے جو محمد رسول اﷲﷺ کے بعد سلسلۂ نبوت ورسالت جاری رہنے کے مدعی ہیں۔ ختم نبوت کا عقیدہ رکھنے والوں کے ذمہ کسی چیز کا ثابت کرنا نہیں ہے۔ ہم یعنی خاتم النبیینﷺ کو آخری نبی تسلیم کرنے والے، ان مدعیان باطل سے اتنا کہہ کر بری الذمہ وہ جاتے ہیں۔ ’’ھاتوا برہانکم ان کنتم صادقین (البقرۃ:۱۱۱)‘‘
اس کے ساتھ ہم جانتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس تارعنکبوت کے برابر بھی کوئی دلیل ان کے عقیدہ باطلہ کی نہیں۔ اس لئے ہم ان سے کہتے ہیں۔ ’’فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ (البقرۃ:۲۴)‘‘
ہندوستان کی خصوصیت
عام طور پر جو چیزیں ختم نبوت کے انکار یا اس میں شک وشبہ کی گمراہی میں مبتلاء ہیں۔