سوم…
کسی امت یا دنیا کی کسی خاص حالت میں نبی کی بعثت ضروری یا راحج ہے۔
چہارم…
سلسلۂ نبوت کا تھوڑے تھوڑے وقتوں یا بلاتوقف جاری رہنا لازم یا قابل ترجیح ہے اور اس وقفہ کی مقدار اتنی ہونی چاہئے۔
یہ مسائل قطعاً عقلی نہیں بلکہ خالصتاً نقلی ہیں۔ اﷲ علاّم الغیوب ہی جانتے ہیں کہ کب کہاں اور کن حالات میں بعثت انبیاء علیہم السلام مفید اور ضروری معلوم ہوئی۔ حکیم وعلیم کی حکمت جب اور جن حالات میں جس امت کے لئے اس نعمت کی مقتضی ہوئی۔ اسی وقت اور ایسے ہی حالات میں اس امت میں نبی ورسول کو مبعوث فرمایا گیا۔ عقل بشری بغیر اعانت نقل صحیح ان امور کے دریافت کرنے سے عاجز وقاصر ہے۔
اس اصول کے نتیجہ صریح کے طور پر ہم یہ ماننے پر بھی مجبور ہیں کہ عقل انسانی کا فطری رجحان یہ ہے کہ جب تک کسی قطعی ویقینی دلیل نقلی سے کسی نبی کی ضرورت نہ ثابت ہو جائے اس وقت تک وہ اس کی بعثت کو بے ضرورت سمجھے اور اس کی احتیاج کا بالکل احساس نہ کرے۔ گویا کسی نبی کی بعثت کو غیرضروری سمجھنا عقل سلیم کا تقاضا اور اس کا فطری رجحان ہے۔ اتنی بات معلوم کرنے کے لئے اسے نقل کی کوئی احتیاج نہیں۔ نفی بعثت نبی عقلی شئے ہے۔ جس کا فیصلہ عقل محض بھی کر سکتی ہے۔ مگر اثبات بعثت نبی یا اس کی ضرورت وحاجت یا تعین محل اور شخصیت وزمانہ وغیرہ عقلی مسائل نہیں ہیں۔ جن کا ادراک عقل محض کر سکے۔ اس لئے انہیں صرف عقلی دلائل سے دریافت اور ثابت کرنے کی کوشش کرنا سخت قسم کی کج فہمی اور بنیادی غلطی ہے۔
ہاں! ختم نبوت کا قائل ہونا خواہ اس کے لئے کوئی نقلی دلیل ہو یا نہ ہو۔ بلکہ فطری شئے ہے۔ یا بالفاظ دگر اگر بالفرض کوئی آیت قرآنی یا حدیث نبوی نہ ملے جس سے محمد رسول اﷲﷺ کا خاتم النبیین ہونا ثابت ہو تو بھی سلامت عقل کا تقاضا اور فہم کا فطری رجحان یہی ہے کہ ہم آنحضورﷺ کو خاتم النبیین تسلیم کریں اور اس وقت تک آنحضرتﷺ کے بعد کسی نبی کی بعثت کا امکان تسلیم نہ کریں جب تک مندرجہ ذیل امور قطعی ویقینی دلائل شرعیہ نقلیہ یعنی نص قرآنی یا نص حدیث متواتر سے نہ ثابت ہو جائیں۔
اوّلاً… امت محمدیہ میں کسی مرحلہ ومنزل پر کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا۔
ثانیاً… اس نبی کی فلاں فلاں نشانیاں اور علامتیں ہوںگی جس سے اس کی نبوت ورسالت بالکل واضح ہو گی۔