ضرورت معلوم کرنے سے بالکل قاصر ہے اور اگر اسے اس کے حدود استطاعت میں فرض بھی کر لیا جائے تو انبیاء کے زمان ومکان اور امت کے تعین کے بارے میں تو وہ بالکل سرمہ درگلو اور انگشت بدندان نظر آتی ہے۔
ایسی حالت میں مسئلہ اجرائے نبوت کو محض عقل سے سمجھنے کی کوشش کرنا نقل کی امداد کے بغیر محض عقلی استدلال کے بھروسہ پر یہ دعویٰ کرنا کہ سلسلۂ نبوت کو جاری رہنا چاہئے یا فلاں زمانہ اور دور میں نبی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یا بالفاظ مختصر عقل کے اسپ لنگ کو اس میدان میں جولان کرنا عقل اور ان مسائل دونوں پر سخت ظلم ہے۔ یہ نتیجہ ہے دین میں فلسفیانہ طرز فکر اختیار کرنے کا جو الٰہیات کی طرح نبوات میں بھی بالکل غلط، گمراہ کن اور مغالطہ انگیز ہے۔ حق تعالیٰ نے اس مغالطہ کی بیخ کنی فرمائی ہے اور صاف صاف فرمایا ہے کہ ’’اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ (الانعام:۱۲۴)‘‘ {اﷲتعالیٰ ہی زیادہ جانتے ہیں کہ کسے رسول بنائیں۔}
نبی اور رسول کون ہو؟ اور کب ہو؟ ان سب باتوں کو اﷲ علیم وبصیر ہی جانتے ہیں اور اپنی مرضی سے متعین فرماتے ہیں کہ کسی کی عقل وخرد کو حق نہیں کہ ان امور کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکے۔ ’’اھم یقسمون رحمۃ ربک (الزخرف:۳۲)‘‘ {کیا آپ کے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟}
کیا یہ کہنا کہ بنواسرائیل میں سلسلہ نبوت مدت دراز تک جاری رہا اور ایسے اشخاص بکثرت ہوئے جو وحی ربانی اور بلاواسطہ ہدایت الٰہی کے شرف سے مشرف ہوئے۔ اس لئے امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ میں ایسے اشخاص کا وجود ناگزیر ہے۔ یا یہ کہنا کہ امت کا اس سے محروم رہنا اس کی نکبت وذلت ہے۔ کیا تقسیم رحمت رب کا جاہلی ادّعا باطل نہیں ہے؟ یہی وہ فلسفیانہ جہالت اور کج فہمی ہے جس نے مرزاغلام احمد قادیانی آنجہانی کو کفر وارتداد کے قعر عمیق میں گرادیا اور یہی وہ جاہلی مغالطہ ہے جس میں آج بھی بہت سے اشخاص مبتلا ہیں۔
سطور بالا کا ماحاصل یہ ہے کہ عقل محض مندرجہ ذیل مسائل کو بغیر اعانت نقل صحیح سمجھنے سے بالکل عاجز ہے۔
اول…
کسی نبی کی بعثت کی کس وقت اور کس زمانہ میں احتیاج ہوتی ہے؟ اور فلاں زمانہ ایسا ہے جس میں نبی ورسول کی بعثت ناگزیر یا کم ازکم قابل ترجیح ہے۔
دوم…
کسی قوم میں نبی کا مبعوث ہونا مناسب یا ضروری ہے۔